You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وَحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّهُ رَأَى أَبَا هُرَيْرَةَ يَتَوَضَّأُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ حَتَّى كَادَ يَبْلُغُ الْمَنْكِبَيْنِ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ حَتَّى رَفَعَ إِلَى السَّاقَيْنِ، ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ أَثَرِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يُطِيلَ غُرَّتَهُ فَلْيَفْعَلْ»
Nu'aim b. 'Abdallah reported: He saw Abu Huraira perform ablution. He washed his face and washed his hands up to the arms. He then washed his feet and reached up to the shanks and then said: I heard Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) say: My people would come with bright faces and bright hands and feet on account of the marks of ablution, so he who can increase the lustre of his forehead (and that of his hands and legs) should do so.
سعید بن ابی ہلال نے نعیم بن عبداللہ سےروایت کی کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا،انہوں نے اپنا چہرہ اور بازو دھوئےیہاں تک کہ کندھوں کے قریب پہنچ گئے ، پھر انہوں نے اپنے پاؤں دھوئے ، یہاں تک کہ اوپر پنڈلیوں تک لے گئے ، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ میری امت کے لوگ قیامت کے دن وضو کے اثر سے روشن چہروں اور سفید چمکدار ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے، لہٰذا تم میں سے جو اپنی روشنی کو آگے تک بڑھا سکتا ہے ، بڑھا لے ۔ ‘‘
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 40 ´اعضائے وضو کو حد فرض سے زیادہ تک دھونا` «. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: إن امتي ياتون يوم القيامة غرا محجلين من اثر الوضوء، فمن استطاع منكم ان يطيل غرته فليفعل . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ”قیامت کے روز میری امت کہ لوگ ایسی حالت میں آئیں گے کہ وضو کے اثرات کی وجہ سے ان کے ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے۔ تم میں سے جو شخص اس چمک اور روشنی کو زیادہ بڑھا سکتا ہو اسے ضرور بڑھانی چاہیئے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 40] لغوی تشریح: «غُرًّا» «یَأتُونَ» کی «هُمْ» ضمیر سے حال واقع ہو رہا ہے۔ ”غین“ پر ضمہ اور ”را“ پر تشدید ہے۔ «أَغُرًّ» کی جمع ہے اور «أَغُرًّ» اسے کہتے ہیں جس کے لیے سفیدی ہو۔ اور «غُرَّة» دراصل اس سفید چمک کو کہتے ہیں جو گھوڑے کی پیشانی میں ہوتی ہے۔ «مُحَجَّلِيْن» «تَحْجِيْل» سے اسم مفعول واقع ہو رہا ہے۔ اس سفیدی کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے پاؤں میں ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ وضو کی چمک کی وجہ سے ان کے چہرے، ہاتھ اور پاؤں چمک رہے ہوں گے۔ «يُطِيلُ» «إِطَالَة» سے ماخوذ ہے۔ دراز، لمبا اور طویل کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ «غُرَّتَهُ» اپنے چہرے کی چمک اور روشنی اور اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کی روشنی۔ مطلب یہ ہوا کہ جہاں تک پانی پہچانا لازمی ہو وہاں سے آگے پہنچایا جائے۔ فوائد ومسائل: ➊ اس حدیث کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں: ◄ ایک یہ کہ اعضائے وضو کو حد فرض سے زیادہ تک دھونا، مثلاً: ہاتھوں کو کندھوں تک اور پاؤں کو گھٹنوں تک۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث نے یہی مفہوم سمجھا اور اسی پر ان کا اپنا عمل تھا۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمها اللہ بھی اسے مستحب سمجھتے ہیں، مگر امام مالک رحمہ اللہ اسے مستحب نہیں سمجھتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ وضو کی حد متعین ہے اور زیور اپنے مقام پر ہے۔ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمها اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ حد فرض سے زیادہ دھونا پسندیدہ امر نہیں۔ دیکھئے: [تيسير العلام شرح عمدة الأحكام 46/1 - 48] ◄ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر عضو وضو کو تین تین مرتبہ دھوئے۔ اور تیسرا مفہوم یہ بھی ممکن ہے کہ وضو موجود ہو مگر ثواب کی نیت سے تازہ وضو کرے اور ہر وقت باوضو رہنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ دونوں مفہوم ظاہر کے خلاف ہیں۔ ➋ اس آخری جملے کے بارے میں راوی کو تردد ہے کہ یہ مرفوع ہے یا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے جیسا کہ مسند احمد اور فتح الباری میں ہے۔ [1؍236، حدیث: 136] اس لیے اس سے مقررہ حد سے زائد حصے کو دھونے کے استحباب پر استدلال محل نظر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [إغاثة اللهفان: 1/ 200] بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 40