You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَصْدَقُ بَيْتٍ قَالَهُ الشَّاعِرُ: [البحر الطويل] أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللهَ بَاطِلٌ وَكَادَ ابْنُ أَبِي الصَّلْتِ أَنْ يُسْلِمَ "
Abu Huraira reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: The truest verse recited by a poet is: Behold! apart from Allah everything is vain, and Ibn Abu Salt was almost a Muslim.
زائد ہ نے عبد الملک بن عمیر سے، انھوں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :کسی بھی شاعرکا کہا ہوا سب سے سچا شعر وہ ہے جو لبید نے کہا ہے۔سنو اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔ اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہو جا تا ۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6489 ´جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے اور اسی طرح دوزخ بھی ہے` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَصْدَقُ بَيْتٍ قَالَهُ الشَّاعِرُ: أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سب سے سچا شعر جسے شاعر نے کہا ہے یہ ہے ”ہاں اللہ کے سوا تمام چیزیں بےبنیاد ہیں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6489] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6489 کا باب: «بَابُ: «الْجَنَّةُ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ، وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِكَ»:» باب اور حدیث میں مناسبت: تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے دو حدیثوں کا انتخاب فرمایا، پہلی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس سے باب کا تعلق ظاہر ہے، مگر دوسری حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا ذکر ہم نے چند سطروں پہلے کیا ہے اس کا تعلق باب کے ساتھ مشکل ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: «مناسبة هذا الحديث الثاني للترجمة خفية، وكأنه الترجمة لما تضمنت ما فى الحديث الأول من التحريض على الطاعة و لو قلت و الزجر عن المعصية و لو قلت فيفهم أن من خالف ذالك إنما يخالفه لرغبة فى أمر من أمور الدنيا، و كل ما فى الدنيا باطل كما صرح به الحديث الثاني، فلا ينبغي للعاقل أن يؤثر الفاني على الباقي.» (3) ”یعنی حدیث ثانی کے ساتھ باب کی مناسبت بہت خفی ہے، گویا ترجمہ میں پہلی حدیث میں مذکور اطاعت کی ترغیب کو متضمن ہے چاہے قلیل ہو، اسی طرح زجر عن معصیت چاہے قلیل ہوں تو اسے سمجھا جائے گا کہ جس نے اس کی مخالفت کی اس نے امور دنیا میں سے کسی امر میں جنت کے سبب اس کی مخالفت کی اور دنیا میں جو کچھ ہے باطل ہے، جیسا کہ دوسری حدیث نے تصریح کی تو عاقل کو چاہیے کہ فانی چیز کو باقی رہنے والی چیز پر ترجیح ہرگز نہ دے۔“ یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے ہی دقیق الفاظوں سے باب کا معنی حدیث سے اخذ فرمایا ہے، آپ کا طریقہ استنباط اس طرح سے ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کی اطاعت میں ہو گا اس کا عمل قائم رہے گا اور وہ برباد اور ضائع نہ ہو گا، کیوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ ہر کسی کو زوال اور اختتام ہے، لہذا جو نیک کام اللہ کے لیے ہو گا اسے زوال نہ ہو گا اور جو کام نا فرمانی کی غرض سے ہو گا، یقینا اس کام کو زوال ہو گا اور وہ کام صرف دنیا میں ہی نظر آئے گا اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ ابن بطال رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «و المراد بقوله ”ألا كل بشيئي“ إلى آخره الخصوص، لأن كل ما قرب من الله تعالي فليس بباطل، و إنما أراد أن كل شيئي ما خلا الله باطل من أمر الدنيا الذى لا يئول إلى طاعة الله، و لا يقرب منه تعالي فهي باطل.» (1) ”یعنی ہر وہ شیئ جو اللہ تعالی کے قریب ہو گی وہ باطل نہ ہو گی اور ہر وہ شیئی جو اللہ تعالی کی نافرمانی پر قائم ہو گی تو پس وہ اللہ تعالی کے قریب نہ ہو گی اور وہ باطل ہو گی۔“ لہذا اب باب سے حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہوئی کہ نیک اعمال کا ٹھکانہ جنت ہے اور وہ لازوال ہے، اور برے اعمال کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جہنم والے اعمال برباد کر دیے جائیں گے۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 220