You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: «سَلُونِي عَمَّ شِئْتُمْ» فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: «أَبُوكَ حُذَافَةُ» فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ»، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَضَبِ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللهِ. وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ قَالَ: مَنْ أَبِي؟ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ»
Abu Musa reported that Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) was asked such things which he disapproved and when they persisted on asking him he felt enraged and then said to the people: Ask me what you wish to ask. Thereupon a person said: Who is my father? He said: Your father is Hudhafa. Then another person stood up and said: Allah's Messenger, who is my father? He said: Your father is Salim, the freed slave of Shaiba. When 'Umar saw the signs of anger upon the face of Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ), he said: Allah's Messenger, we ask repentance from Allah. And in the hadith transmitted on the authority of Abu Kuraib (the words are): Allah's Messenger, who is my father? He said: Your father is Salim, the freed slave of Shaiba.
عبد اللہ بن براداشعری اور (ابو کریب) محمد بن علاءہمدانی نے کہا : ہمیں ابو اسامہ نے یزید سے حدیث بیان کی ،انھوں نے ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند (ایسی)چیزوں کے بارے میں سوال کیے گئے جو آپ کو پسند نہ آئیں جب زیادہ سوال کیے گئے تو آپ غصے میں آگئے ،پھر آپ نے لوگوں سے فرما یا : جس چیز کے بارے میں بھی چاہو مجھ سے پوچھو۔ ایک شخص نے کہا :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کو ن ہے؟آپ نے فر ما یا : تمھا را باپ حذافہ ہے۔ دوسرے شخص نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کو ن ہے؟آپ نے فر ما یا : تمھا را باپ شیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے تو کہا:اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اللہ سے تو بہ کرتے ہیں ابو کریب کی روایت میں ہے کہ اس نے کہا : اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کو ن ہے؟آپ نے فر ما یا : تمھا را باپ شیبہ کامولیٰ سالم ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 92 ´بےجا سوالات پر استاد کا ناراض ہونا` «. . . قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 92] تشریح: لغو اور بے ہودہ سوال کسی صاحب علم سے کرنا سراسر نادانی ہے۔ پھر اللہ کے رسول سے اس قسم کا سوال کرنا تو گویا بہت ہی بے ادبی ہے۔ اسی لیے اس قسم کے بے جا سوالات پر آپ نے غصہ میں فرمایاکہ جو چاہو دریافت کرو۔ اس لیے کہ اگرچہ بشر ہونے کے لحاظ سے آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے۔ مگر اللہ کا برگزیدہ پیغمبر ہونے کی بنا پر وحی و الہام سے اکثر احوال آپ کو معلوم ہو جاتے تھے، یا معلوم ہو سکتے تھے جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہیں مانتے ہو تو اب جو چاہو پوچھو، مجھ کو اللہ کی طرف سے جو جواب ملے گا تم کو بتلاؤں گا۔ آپ کی خفگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر حاضرین کی نمائندگی فرماتے ہوئے ایسے سوالات سے باز رہنے کا وعدہ فرمایا۔ صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 92