You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَافَسُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا
Abu Huraira reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: Avoid suspicion, for suspicion is the gravest lie in talk and do not be inquisitive about one another and do not spy upon one another and do not feel envy with the other, and nurse no malice, and nurse no aversion and hostility against one another. And be fellow-brothers and servants of Allah.
اعرج نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے دور رہو کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے، دوسروں کے ظاہری عیب تلاش کرو نہ دوسروں کے باطنی عیب ڈھونڈو، مال و دولت میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت نہ کرو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، اور اللہ کے ایسے بندے بن کر رہو جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 6 ´حسد اور پیٹھ پیچھے برائی کی ممانعت` «. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلا تَنَاجَشُوا، وَلا تَحَاسَدُوا، وَلا تَنَافَسُوا، وَلا تَبَاغَضُوا، وَلا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا " . . . .» ”. .۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدگمانی سے بچتے رہو، بدگمانی سے بچتے رہو، کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، اور (بغیر نیت خرید کے) کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ، اور آپس میں حسد نہ کرو، اور نہ نفسانیت سے ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اور آپس میں دشمنی پیدا نہ کرو، اور کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔“ . . .“ [صحيفه همام بن منبه: 6] شرح الحدیث: مذکورہ حدیث میں چند ایسی ممنوع اشیاء کا ذکر ہے جو باہم مسلمانوں میں نفرت اور عداوت کا باعث بنتی ہیں۔ اور یہ ایسی معاشرتی برائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، اس حدیث پاک میں چند اخلاقی امور کی تلقین کی جا رہی ہے جو اصلاح معاشرہ کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ ➊ بدگمانی سے بچو: بدگمانی، دوسرے کے متعلق جھوٹا وہم ہے، اور جو جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے: «فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ» ”پس بدگمانی کی اکثر باتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔“ امام بغوى رحمة الله عليه فرماتے ہیں: «إِيَاكُمْ وَالظَّنَّ» کا معنی برے گمان سے بچو، ایسا گمان جس میں دوسرے شخص کے ہر کام میں بدنیتی نظر آتی ہے، جس کے نتیجے میں دو افراد کے درمیان برادرانہ تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ وہ گمان مراد نہیں جن کا انسان مالک ہی نہیں، دل میں خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں، اسی لیے فرمایا: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» [الحجرات: 12] ”اے ایمان والو! بہت ساری بدگمانی کی باتوں سے پرہیز کرو، بے شک بعض بدگمانی گناه ہیں۔“ مذکورہ آیت میں مطلق گمان کو گناہ نہیں گردانا گیا بلکہ بعض گمان کو گناہ کہا گیا ہے، اور وہ برا گمان ہے۔ اور وہ گمان جو گناہ نہیں وہ کسی کے متعلق حسن ظن رکھنا ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ حُسْنَ الظَنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَة» احمد شاکر نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔ [مسند احمد، رقم: 7943 - سنن ابو داؤد، كتاب الأدب، رقم: 4993] ”یقیناً اچھا گمان بہترین عبادت سے ہے۔“ مزید برآں علامہ بغوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: سفیان ثوری رحمة الله عليه کا کہنا ہے کہ گمان دو طرح کا ہے: ➊ انسان کسی کے متعلق برا گمان رکھے، اور اس کو آگے بیان بھی کرے، تو ایسے گمان پر گناہ ہے۔ ➋ اس سے مراد وہ گمان ہے جس کو انسان آگے بیان نہ کرے، ایسے گمان پر گناہ نہیں ہے۔ [شرح السنة: 110/13] زجاج رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ: ”بدکرداروں اور فاسقوں کے ظاہری اعمال سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، ان کے بارے میں ویسا ہی (برا گمان) رکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس مسلمان کا ظاہر اچھا ہے، اس کے بارے میں بدگمانی جائز نہیں۔ اور جس کا ظاہر خراب ہو، اس کے بارے میں بدگمانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔“ ➋ کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ: مراد یہ ہے کہ ایک چیز کا خریدنا منظور نہ ہو، لیکن دوسرے کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ سے اس چیز کی قیمت بڑھائے، اسی طرح کوئی شخص کسی شے کا بھاؤ کر رہا ہو تو تم اس میں دخل اندازی مت کرو۔ دھوکا دینے کے لیے جھوٹ سے بھاؤ بڑھانے والا گنہگار ہے۔ ➌ تم حسد نہ کرو: حسد انسانی فطرت کا جزو لا ینفك ہے، حسد کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے پاس کوئی چیز یا نعمت دیکھے اور تمنا کرے کہ یہ چیز میرے پاس ہو، اور اس شخص (جس کے پاس وہ نعمت ہے) سے زائل اور ختم ہو جائے، جبکہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ نعمت ہمیں اگرچہ حاصل نہ ہو لیکن وہ شخص بھی اس نعمت سے محروم ہو جائے۔ اس قسم کا حسد کرنے والے زیادہ خبیث اور بدکردار ہوتے ہیں۔ یاد رہے! اس حدیث میں حسد سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ حسد حرام ہے۔ الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو بالعموم تمام مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، اور کچھ برائیوں سے بالخصوص پناہ مانگنے کی نصیحت فرمائی ہے، ان میں سے حسد بھی ہے۔ جیسا کہ سورة الفلق میں ہے: «وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ .......» ”اے نبی! کہہ دیجئے: کہ میں حاسد کے حسد سے تیری پناہ چاہتا ہوں، جب وہ اپنا حسد ظاہر کرتا ہے۔“ تاکہ محسور کو نقصان نہ پہنچائے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حاسد کے مفہوم میں وہ آدمی بھی داخل ہے جس کی نظر لگ جاتی ہے، اس لیے کہ جو آدمی حاسد، بدطینت اور خبیث النفس ہوتا ہے اسی کی نظر برئی ہوتی ہے۔ عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ”میں نے حاسد سے زیادہ کسی ظالم کو مظلوم کے مشابہ نہیں دیکھا، حسد کے سبب ظالم ہوتا ہے، لیکن نعمت سے محرومی کے سبب مظلوم معلوم ہوتا ہے۔“ [تيسير الرحمن، ص: 1783] حسد کے حرام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ الله نے جسے کچھ بھی دیا ہے بغیر حکمت کے نہیں دیا، وہ خواہ اس کا فضل و کرم سہی، خواہ اس آدمی کی محنت کا صلہ ہو، دینے والا تو بہرحال الله خالق کل اور مختار کل ہے، تو نعمت پر اعتراض دراصل الله کے فضل و کرم پر اعتراض ہے، جبکہ مخلوق کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے خالق پر اعتراض کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جب انسان کسی سے حسد کرتا ہے تو اپنے بھائی کے نقصان کے در پے ہوتا ہے، پھر غیبت، جھوٹ وغیرہ جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جس کا وہ مرتکب ہوتا ہے۔ ➍ رشک کرو: لیکن رشک کرنا جائز و درست ہے، رشک یعنی دوسرے کو جو نعمت الله نے دی ہے، اس کی آرزو کرنا یہ درست ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «لا حسد إلا على اثنتين: رجل آتاه الله الكتاب وقام به آناء الليل، ورجل اعطاه الله مالا فهو يتصدق به آناء الليل والنهار» [صحيح بخاري، كتاب فضائل القرآن، رقم: 5025] ”رشک تو دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے، ایک تو اس پر جسے الله نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا۔ اور دوسرا آدمی وہ جسے الله تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا۔“ ➎ تم نفسانیت سے ایک دوسرے سے آگے مت بڑھو: طبرانی رحمة الله عليه اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”تم ایک دوسرے کی رِیس کرتے ہوئے، ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا کا مال و دولت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر نیکی کے کام کرنے کی کوشش کرو۔“ فرمان باری تعالیٰ ہے: «فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْن» [المطففون: 26] ”انہی (نیکی کے) کاموں میں رغبت کرنے والوں کو رغبت کرنی چاہیے۔“ گویا یہاں منافست کا معنی رشک کرنا ہے، اور بعض لوگ اس کا معنی حسد کرتے ہیں، وہ درست نہیں۔“ ➏ تم ایک دوسرے سے دشمنی پیدا نہ کرو، بغض نہ رکھو۔ بغض محبت کی ضد ہے، لہذا ایک دوسرے سے بغض رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے محبت رکھنی چاہیے، کیونکہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: «إِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ إِخْوَةٌ» [الحجرات:10] ”بےشک مومنین آپس میں بھائی ہیں۔“ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی اسلامی اخوت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه» [صحيح بخاري، كتاب المظالم، رقم: 2442] ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے رسوا کرے۔“ اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «إن المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا، وشبك اصابعه» [صحيح بخاري، كتاب الصلوة، رقم: 481] ”بے شک مومن مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو طاقت پہنچاتا ہے۔ اور آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔“ اور اگر یہ بغض دین کی خاطر ہو، «أَلْحُبُّ لِلّهِ وَالْبُغْضُ فِي للّه» کے پیش نظر تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن مجید میں کفار سے بغض رکھنے کا حکم ہے، اور ان سے دوستی اور محبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا: «لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ» [آل عمران: 28] ”اہل ایمان، مومنون کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں الایہ کہ تم ان کافروں کے شر سے بچنا چاہو اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ امام بخاری رحمه الله نے سیدنا ابو الدردا رضی الله عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ: «إنا لنكشر فى وجوه اقوام وإن قلوبنا لتلعنهم» [صحيح بخاري، كتاب الادب، قبل حديث، رقم: 6131 تعليقا] ”ہم بعض لوگوں کے سامنے مسکرا دیتے ہیں، لیکن ہمارے دل انہیں لعنت کر رہے ہوتے ہیں۔“ ➐ تم ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہ کرو: اس حدیث میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرنے، پشت پھیر لینے، منہ موڑ لینے اور بے رخی اختیار کرنے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔ ایک صحیح مسلم کی روایت میں «لَا تَقَاطَعُوْا» کے الفاظ بھی ہیں کہ ایک دوسرے سے تعلق نہ توڑو، غصہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، اگر کسی دوست پر غصہ آ ہی جائے تو اسلام نے انسانی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے تین دن تک اسے جائز رکھا ہے، تین دنوں سے زیادہ روٹھے رہنا اور ایک دوسرے سے گفتگو نہ کرنا، یہ نفرت و حقارت کا سبب بن سکتا ہے اس صورتحال سے بچنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: «لا يحل لرجل ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذى يبدا بالسلام» [صحيح بخاري، كتاب الادب، رقم: 6077] ”کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی کرے (بائیکاٹ کرے) دونوں آپس میں ملتے ہیں، ایک اس طرف منہ پھیر لیتا ہے اور دوسرا دوسری طرف رخ پھیر لیتا ہے۔ ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔“ ➑ تم سب الله کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو: اس حدیث کے آخر میں بھائی بھائی بن کر رہنے کا حکم فرمایا ہے، تاکہ مسلمان آپس میں اکھٹے اور مضبوط رہیں۔ کیونکہ تم سب مسلمان ایک ہی برادری کے افراد ہو، مسلمان جہاں کہیں بھی ہو دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہیں جو اخوت اسلامی کے تقاضے بھی ہیں کہ دوسرے پر ظلم نہ کرے، ضرورت کے وقت اس کا ساتھ نہ چھوڑے، اس کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور اس سے دروغ گوئی نہ کرے وغیرہ، ویسے تو ہر قول رسول ہی ایسا ہے کہ اسے ہر وقت یاد رکھا جائے مگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ مقدس وعظ ایسا ہے جو ہر وقت یاد رکھا جائے، اور اس پر عمل کیا جائے تو یقینا امت کا بیڑا پار ہو سکے گا۔ الله عظیم و برتر سب کو ایسی ہمت اور طاقت عطا کرے۔ «آمين يا رب العالمين!» صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث\صفحہ نمبر: 82