You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، عَنِ الْمَنِيِّ يُصِيبُ ثَوْبَ الرَّجُلِ أَيَغْسِلُهُ أَمْ يَغْسِلُ الثَّوْبَ؟ فَقَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْسِلُ الْمَنِيَّ ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ فِي ذَلِكَ الثَّوْبِ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى أَثَرِ الْغَسْلِ فِيهِ.
Amr b. Maimun said: I asked Sulaiman b. Yasar whether the semen that gets on to the garment of a person should be washed or not. He replied: A'isha told me: The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) washed the semen, and then went out for prayer in that very garment and I saw the mark of washing on it.
محمد بن بشر نے عمرو بن میمون سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ میں نے سلیمان بن یسار سے آدمی کے کپڑے کو لگ جانےوالی منی کے بارے میں پوچھا کہ انسان اس جگہ کو دھوئے یا ( پورے) کپڑے کو دھوئے؟ تو انہوں نے (سلیمان بن یسار) نے کہا: مجھے عائشہ ؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ (کپڑے سے ) منی کو دھوتے ، پھر اسی کپڑے میں نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور میں اس میں دھونے کا نشان دیکھ رہی ہوتی ۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 25 ´منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا` «. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يغسل المني ثم يخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب، وانا انظر إلى اثر الغسل فيه . . .» ”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کپڑے پر لگی ہوئی) منی کو دھویا کرتے تھے۔ پھر اسی کپڑے کو زیب تن فرما کر نماز پڑھ لیتے تھے اور میں دھونے کے نشان اور اثر کو صاف طور پر (اپنی آنکھوں سے) دیکھتی تھی . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 25] لغوی تشریح: «أَفْرُكُهُ» اس میں ضمیر متصل ”ھـ“ سے مراد منی ہے۔ ”را“ کے ضمہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ جائز ہے۔ باب «نَصَرَ يَنْصُرُ» اور «ضَرَبَ يَضْرِبُ» دونوں سے آتا ہے۔ «اَلْفَرْك» کے معنی ہیں: مَل کر صاف کرنا یہاں تک کہ نشان اور دھبہ وغیرہ زائل ہو جائے۔ «أَحُكُّهُ» میں بھی ضمیر متصل ”ھـ“ سے مراد منی ہے۔ ”حا“ کے ضمہ کے ساتھ «حَك» سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی بھی ملنے اور کھرچنے کے ہیں۔ «يَابِسًا» حال واقع ہوا ہے جس کے معنی خشک کے ہیں۔ فوائد و مسائل: ➊ اس بارے میں وارد تمام روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا واجب نہیں، خواہ وہ خشک ہو یا تر، بلکہ اس کو زائل کرنے کے لئے جبکہ وہ تر ہو اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہاتھ، کپڑے، گھاس یا دیگر اشیاء، مثلاً: لکڑی یا سرکنڈے وغیرہ سے صاف کر دیا جائے۔ ➋ ایک گروہ نے ان احادیث کی روشنی میں یہ استدلال کیا ہے کہ منی پاک ہے۔ مگر اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ منی پاک ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں کہا ہے کہ «تَعَبُّدًا» منی کو دھو کر، ہاتھ کے ساتھ صاف کر کے، اسے مَل کر، کھرچ کر یا رگڑ کر زائل کرنا ثابت ہے۔ کسی چیز کے زائل کرنے کا حکم یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ چیز نجس ہے۔ پس صحیح موقف اور صائب مسلک یہی ہے کہ منی ناپاک ہے، لہٰذا مذکورہ بالا تمام طریقہ ہائے طہارت میں سے کسی ذریعے سے اس متاثرہ حصے کو پاک کیا جائے۔ مگر علامہ شوکانی رحمہ اللہ ہی نے السیل الجرار اور الدرر البھیّة میں منی کو پاک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی نجاست پر کوئی نص نہیں۔ گویا اس بارے میں ان کی رائے مختلف ہے۔ ➌ واضح رہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ انسان کا مادہ منویہ پاک ہے یا ناپاک۔ ایک مکتب فکر کی رائے ہے کہ منی آب بینی (ناک کی رطوبت) اور لعاب دہن کی طرح پاک ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام شافعی، داود ظاہری، امام احمد رحمها اللہ اور صحابہ میں سے سیدنا علی، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا ابن عمر اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کرتے ہیں۔ اور دوسرے مکتب فکر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ کرتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خشک منی کھرچ دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ پانی سے دھونا ضروری نہیں۔ دونوں مکتب فکر کے پاس دلائل ہیں۔ منی کو پاک قرار دینے والوں کی دلیل اسے کھرچ دینا ہے۔ چونکہ اس کے بعد کپڑا دھویا نہیں گیا اس لیے یہ پاک ہے ورنہ کھرچنے کے بعد اسے دھویا ضرور جاتا۔ اور جس گروہ نے اسے ناپاک کہا ہے، ان کی دلیل منی سے آلودہ جگہ کو پانی سے دھونا ہے۔ اگر یہ پاک ہوتی تو دھونے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اسے پاک کہنے والوں کا جواب یہ ہے کہ کپڑے کو دھویا تو صرف نظافت کی بنا پر گیا ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بدائع الفوائد، 3/ 119۔ 126 میں اس پر بڑی نفیس بحث کی ہے۔ راوی حدیث: SR سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما ER ہجرت مدینہ سے دو سال قبل ماہ شوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی زوجیت میں لیا اور رخصتی شوال ایک ہجری میں ہوئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ تعریف و توصیف سے مستغنیٰ ہیں۔ 57 یا 58 ہجری کے ماہ رمضان کی 17 تاریخ کو فوت ہوئیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن کی گئیں۔ بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ بہت سی احادیث کی راویہ ہیں۔ اشعار عرب سے بخوبی واقف تھیں۔ آپ کی برأت آسمان سے نازل ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ نور میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہی کے حجرے میں مدفون ہیں۔ بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 25