You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَابْنُ حَاتِمٍ قَالَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَنْتَ آدَمُ الَّذِي أَخْرَجَتْكَ خَطِيئَتُكَ مِنْ الْجَنَّةِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ ثُمَّ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى
Abu Huraira reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: There was an argument between Adam and Moses. Moses said: Are you that Adam whose lapse caused you to get out of Paradise? Adam said to him: Are you that Moses whom Allah selected for His Messengership, for His conversation and you blame me for an affair which had been ordained for me before I was created? This is how Adam came the better of Moses.
حمید بن عبدالرحمٰن نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام نے دلائل کا تبادلہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ آدم ہیں جن کی خطا نے انہیں جنت سے باہر نکالا؟ تو حضرت آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: کیا تم موسیٰ ہو جسے اللہ نے اپنی رسالت اور ہم کلامی سے دوسروں پر فضیلت دی، پھر تم مجھے اس معاملے میں ملامت کر رہے ہو جو میری پیدائش سے پہلے میرے لیے مقدر کر دیا گیا تھا؟ اس طرح آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو دلیل سے خاموش کر دیا۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 4 ´تقدیر کا بیان` «. . . 361- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”تحاج آدم وموسى فحج آدم موسى، فقال له موسى: أنت آدم الذى أغويت الناس وأخرجتهم من الجنة؟ فقال له آدم: أنت موسى الذى أعطاك الله علم كل شيء واصطفاك على الناس برسالاته؟ قال: نعم، قال: أفتلومني على أمر قد قدر على قبل أن أخلق“ . . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے درمیان مباحثہ ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا: آپ وہ آدم ہیں جنہوں نے لوگوں کو جنت سے نکال دیا اور پھسلا دیا؟ تو آدم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا: آپ وہ موسیٰ ہیں جنہیں اللہ نے ہر چیز کا علم دیا اور اپنی رسالت کے ساتھ لوگوں میں سے چنا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آدم علیہ السلام نے کہا: آپ مجھے اس بات پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دی تھی۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 4] [وأخرجه مسلم 2652، من حديث مالك، والبخاري 6614، من حديث ابي الزناد به ● وفي رواية يحيي بن يحيي: ”بِرِسَالَتِهِ“] [ تفقه: :] ➊ آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہوا تھا۔ ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی 198ھ) نے اس مناظرے والی حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم اور موسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشید رحمہ الله سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کر دیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ [ديكهئے كتاب المعرفته والتاريخ للامام يعقوب بن سفيان الفارسي 181/2، 182 و سنده صحيح، تاريخ بغداد 243/5 وسنده صحيح] معلوم ہوا کہ حدیث کا مذاق اڑانا ملحدین اور زنادقہ کا کام ہے۔ ➋ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا [ديكهئے سوره ص: 75] جیسا کہ اس کی شان و جلالت کے لائق ہے۔ اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہاں ہاتھ سے مراد قدرت لینا سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی طرف منسوب، غیر ثابت کتاب الفقہ الاکبر“ میں لکھا ہوا ہے کہ «فما ذكره الله تعالىٰ فى القرآن من ذكر الوجه واليد والنفس فهو له صفات بلا كيف ولا يقال إن يده قدرته أو نعمته لأن فيه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والإعتزال ولكن يده صفته بلا كيف» ”اور اس کے لئے ہاتھ منہ اور نفس ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ید سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیوں کہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرین تقدیر اور معتزلہ کا مذہب ہے، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے۔“ [الفقه الاكبر مع شرح ملا على قاري ص36، 37، البيان الازهر، اردو ترجمه صوفي عبدالحميد سواتي ديوبندي ص32] مجہول الکیفیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے۔ تنبیہ: یہ حوالہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ حنفی وغیرہ حنفی علماء کا ایک گروہ اس کتاب کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تصنیف مانتا ہے۔ دیکھئے مقدمۃ البیان الازہر از قلم محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی (ص 16 تا 23) ◄ سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں: ”غرضیکہ فقہ اکبر سیدنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ ہی کی تصنیف ہے لَا رَيْبَ فِيْهِ“ [مقدمة البيان الازهر ص23] اس دیوبندی ”لَا رَيْبَ فِيْهِ“ کتاب کا راوی ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ اس کے بارے میں امامِ اہلِ سنت امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: «لا ينبغي أن يروي عنه۔۔ شيء» اس سے کوئی چیز روایت نہیں کرنی چاہئے۔ [كتاب العلل 2/258 ت1864] ◄ اسماء الرجال کے جلیل القدر امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: «وأبو مطيع الخراساني ليس بشيءٍ» اور ابومطیع الخراسانی کچھ چیز (بھی) نہیں ہے۔ [تاريخ ابن معين رواية الدوري: 4760] ◄ ان کے علاوہ دوسرے محدثین مثلا امام نسائی رحمہ اللہ، ابوحاتم الرازی اور حافظ ابن حبان وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے۔ متاخرین میں سے حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: «فهٰذا وضعه أبومطيع عليٰ حماد» پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے۔ [ميزان الاعتدال 3/42] معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک ابومطیع مذکور وضاع (جھوٹا، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔ اس جرح کے باوجود بعض الناس کا ”الفقه الأکبر“ نامی رسالے کو ”لَا رَيْبَ فِيْهِ“ کہنا انتہائی عجیب وغریب ہے۔!! ➌ تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔ ➍ جو لوگ کہتے ہیں کہ ”ابھی تک جنت پیدا نہیں ہوئی“ ان کا قول باطل ومردود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھا تھا۔ اہلِ سنت کے نزدیک جنت اور جہنم دونوں پیدا شدہ ہیں اور دونوں ہمیشہ رہیں گی اور یہی عقیدہ حق ہے۔ ➎ غلطی اور گناہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں: اول: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد سچے دل سے توبہ کرتے ہیں اور سخت پشیمان ونادم ہوتے ہیں اور آئندہ اصلاح کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ دوم: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد بھی اسی پر اڑے رہتے ہیں، توبہ نہیں کرتے اور نادم وپشیمان بھی نہیں ہوتے اور نہ اصلاح ہی کی کوشش کرتے ہیں۔ اول الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز ہے اور ثانی الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے [شفاء العليل لابن القيم ص35، 36، وشرح حديث جبريل عربي ص65 67، اردو ص104 تا 107،] ● جو شخص گناہ اور کفر کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتا اور پھر تقدیر سے استدلال کرتا ہے تو یہ طریقہ مشرکین وکفار کا ہے۔ دیکھئے سورۃ الانعام (آیت: 148) اور سورۃ النحل (آیت: 35) ➏ صحیح مسلم والی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی مختصراً موجود ہے۔ [ح 34٠9، 4736، 7515] ➐ بحث و مباحثہ میں فریق مخالف کے خلاف وہ دلیل پیش کرنا جسے وہ صحیح و برحق تسلیم کرتا ہے، بالکل صحیح ہے۔ موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 361