You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وَحَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، - قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا وَقَالَ الْآخَرَانِ - حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، يُحَدِّثُ عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ: «أَمَا إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ»، قَالَ فَدَعَا بِعَسِيبٍ رَطْبٍ فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ ثُمَّ غَرَسَ عَلَى هَذَا وَاحِدًا وَعَلَى هَذَا وَاحِدًا ثُمَّ قَالَ: «لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا»
Ibn Abbas reported: The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) happened to pass by two graves and said: They (their occupants) are being tormented, but they are not tormented for a grievous sin. One of them carried tales and the other did not keep himself safe from being defiled by urine. He then called for a fresh twig and split it into two parts, and planted them on each grave and then said: Perhaps, their punishment way be mitigated as long as these twigs remain fresh.
وکیع نے بیان کیا ،(کہا:) ہمیں اعمش نے حدیث سنائی ، انہوں نے کہا : میں نے مجاہد کو طاؤس سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسو ل اللہ ﷺ کا گزر دو قبروں پر ہوا تو آپ نے فرمایا:’’ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی غلطی کی بناپر عذاب نہیں ہو رہا ( جس سے بچنا دشوار ہوتا۔) ان میں ایک تو چغل خوری کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا۔‘‘ ابن عباسرضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ نے ایک تازہ کھجور کی چھڑی منگوائی اور اس کو دوحصوں میں چیر دیا، پھر ایک حصہ اس قبر پر گاڑ دیا اور دوسرا اس ( دوسری قبر)پر ، پھر آپ نے فرمایا:’’امید ہے جب تک یہ دو ٹہنیاں سوکھیں گی نہیں ، ان کا عذاب ہلکا رہے گا۔‘‘
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 20 ´پیشاب سے پاکی کا بیان` «. . . رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ، فَقَالَ:" إِنَّهُمَا يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا هَذَا فَكَانَ لَا يَسْتَنْزِهُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا هَذَا فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ . . .» ”. . .رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(قبر میں مدفون) ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں، ان میں سے یہ شخص تو پیشاب سے پاکی حاصل نہیں کرتا تھا، اور رہا یہ تو یہ چغل خوری میں لگا رہتا تھا۔۔۔“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 20] فوائد و مسائل: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل ہی کے بتانے سے ایسی خبریں دیا کرتے تھے۔ فرمایا: «وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ٭ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ» [النجم: 4۔ 3] ” وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے، جو کہتے ہیں وحی ہوتی ہے ان پر نازل کردہ۔“ اس حدیث سے بعض لوگ یہ مسئلہ اخذ کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے، حالانکہ امور غیب کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ «وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمـٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتـٰبٍ مُبينٍ» [الانعام: 59] ” اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہین جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے۔“ اور فرمایا: «قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ» [النمل: 27۔ 65] ” اے پیغمبر! کہہ دیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔“ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، غیب کی بات پر مطلع فرما دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «عـٰلِمُ الغَيبِ فَلا يُظهِرُ عَلىٰ غَيبِهِ أَحَدًا» ٭ «إِلّا مَنِ ارتَضىٰ مِن رَسولٍ فَإِنَّهُ يَسلُكُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَمِن خَلفِهِ رَصَدًا» [الجن: 72۔ 26، 27] ” (وہی) غیب کی بات جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا، ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے۔“ اور فرمایا: «قُل ما كُنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ وَما أَدرى ما يُفعَلُ بى وَلا بِكُم ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ وَما أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ مُبينٌ» [الاحقاف: 46، 9] ” کہہ دیجیے کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں آیا اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو صاف صاف (کھلم کھلا) ڈرانا ہے۔“ ➋ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور حدیث میں ہے کہ جب حضرت جبریل نے نبی علیہ السلام سے قیامت کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما المسؤل عنها باعلم من السائل» [صحيح البخاري الايمان، باب سؤال جبريل النبى صلى الله عليه وسلم عن الايمان۔۔۔۔۔۔۔ حديث: 50، صحيح مسلم، الايمان، حديث: 8] ” اس کے بارے میں مسؤل کو سائل سے زیادہ علم نہیں ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو قیامت کی چند نشانیوں کے بارے میں ضرور بتلایا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بس اتنا علم غیب تھا جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلوم کروا دیا تھا، اسی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوقت ضرورت بتایا، غیب کے باقی امور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہیں بتایا، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ تھا۔ پیشاب سے طہارت حاصل نہ کرنا، یا اس کے چھینٹوں سے نہ بچنا، یا پردہ نہ کرنا یعنی برسرعام پیشاب پاخانہ کرنے کے لیے بیٹھ جانا عذاب قبر کا باعث ہے۔ ➌ چغل خوری کو بھی عام سی بات نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بھی بہت بڑا گناہ اور عذاب قبر کا باعث ہے۔ ➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں اور چھڑیاں رکھنے کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے مخصوص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ میں سے کسی نے بھی یہ عمل نہیں کیا، اب جو لوگ کرتے ہیں ایک بدعت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 20