You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ نُمَيْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ
Abu Huraira reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: A strong believer is better and is more lovable to Allah than a weak believer, and there is good in everyone, (but) cherish that which gives you benefit (in the Hereafter) and seek help from Allah and do not lose heart, and if anything (in the form of trouble) comes to you, don't say: If I had not done that, it would not have happened so and so, but say: Allah did that what He had ordained to do and your if opens the (gate) for the Satan.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے، جبکہ خیر دونوں میں (موجود) ہے۔ جس چیز سے تمہیں (حقیقی) نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو (مایوس ہو کر نہ بیٹھ) جاؤ، اگر تمہیں کوئی (نقصان) پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش! میں (اس طرح) کرتا تو ایسا ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: (یہ) اللہ کی تقدیر ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے،اس لیے کہ (حشرت کرتے ہوئے) کاش (کہنا) شیطان کے عمل (کے دروازے) کو کھول دیتا ہے۔
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1321 جدوجہد کی ترغیب اور نقصان پہنچنے پر تقدیر پر قناعت کی تلقین «وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:المؤمن القوي خير واحب إلى الله من المؤمن الضعيف وفي كل خير احرص على ما ينفعك واستعن بالله ولا تعجز وإن اصابك شيء فلا تقل لو اني فعلت (كذا) كان كذا وكذا ولكن قل قدر الله وما شاء فعل فإن لو تفتح عمل الشيطان اخرجه مسلم.» ”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر اور اللّٰہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں بھلائی موجود ہے جو چیز تجھے نفع دے اس کی حرص کر اور اللّٰہ سے مدد مانگ اور عاجز نہ ہو اور اگر تجھے کوئی (نقصان دہ) چیز پہنچے تو یہ مت کہہ کہ اگر میں اس طرح کرتا تو اس طرح اور اس طرح ہو جاتا بلکہ یہ کہہ کہ اللہ نے قسمت میں (اسی طرح) لکھا اور جو اس نے چاہا کر دیا کیونکہ «لَو» (اگر) کا لفظ شیطان کے کام کھول دیتا ہے۔“ اسے مسلم نے روایت کیا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1321] تخریج: [مسلم القدر/34]، [تحفته الاشراف 159/01]، [219/01]، [214/10] مفردات: «احْرِصَ - حَرَصَ يَحْرِصُ» (ضرب یضرب) سے امر ہے۔ بعض اوقات باب «سمع يسمع» سے بھی آتا ہے۔ «وَلاَ تَعْجَزْ» جیم کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ۔ فوائد: ➊ قوی مومن ضعیف مومن سے بہتر ہے: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ محبوب ہے اگرچہ کمزور مومن بھی خیر سے خالی نہیں کیونکہ وہ صاحب ایمان ہے اور ایمان بہت بڑی خیر ہے اس کے علاوہ اس میں امانت، علم، تقویٰ اور دوسرے وصف ہو سکتے ہیں۔ البتہ قوی مومن زیادہ قوت کے ساتھ دین پر عمل کر سکتا ہے۔ امربالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد فی سبیل اللہ، صلوۃ، صیام، حج اور اللّٰہ تعالیٰ اور بندوں کے دوسرے حقوق جس طرح قوی مومن ادا کر سکتا ہے کمزور ادا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کمزور کی کارکردگی بھی کمزور ہو گی اللّٰہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی میزبان لڑکی کا قول نقل فرمایا: «إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ» [28-القصص:26 ] ”بہترین شخص جسے تم مزدور رکھو قوی اور امانت والا ہے۔“ اللّٰہ تعالیٰ کا مطالبہ بھی یہ ہے کہ اس کی دی ہوئی شریعت پر پوری طاقت سے عمل کیا جائے بنی اسرائیل کو حکم دیا: «خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ» [2-البقرة:63 ] ”ہم نے تمہیں جو کچھ دیا ہے اسے قوت کے ساتھ پکڑو۔“ اور یحییٰ علیہ السلام سے فرمایا: «يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ» [19-مريم:12 ] ”اے یحییٰ! کتاب کو قوت سے پکڑ۔“ ➋ قوت سے کیا مراد ہے؟ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قوت ہر کام کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے مثلاً جنگ میں قوت کا دارومدار دل کی شجاعت اور جنگی تجربہ پر ہے۔ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے وقت قوت سے مراد یہ ہے کہ اسے کتاب و سنت کا مضبوط علم حاصل ہو، قوت فیصلہ مضبوط ہو اور اپنے احکام نافذ کرنے کی قدرت ہو۔ قوت کے ساتھ امانت کا ہونا بھی ضروری ہے، مگر یہ دونوں وصف ایک جگہ بہت کم پائے جاتے ہیں۔ ذمہ داری سونپتے وقت کسی شخص میں دونوں وصف مل جائیں تو کیا ہی کہنا ورنہ ذمہ داری کی نوعیت کے مطابق قوت یا امانت میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جائے گی۔ مثلاً جنگ کی امارت کے لیے قوت کو خاص طور پر مدنظر رکھا جائے گا اور مالی ذمہ داریوں کے لیے امانت کو۔ البتہ جب لوگوں سے زکوٰۃ اور دوسرے اموال وصول کرنے کا معاملہ ہو تو قوت و امانت دونوں ضروری ہیں۔ وقتی طور پر قوت و امانت میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا ایک مجبوری ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کے احوال کی اصلاح کی کوشش جاری رہنی چاہیئے تاکہ صاحبِ قوت لوگ امانت کے وصف سے متصف ہو جائیں اور صاحب امانت لوگوں کا ضعف دور ہو جائے اور وہ قوی بن جائیں۔ [السياسة الشرعيه لابن تيميه] شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 248