You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمْ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ
Abu Huraira reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: He who alleviates the suffering of a brother out of the sufferings of the world, Allah would alleviate his suffering from the sufferings of the Day of Resurrection, and he who finds relief for one who is hard-pressed, Allah would make things easy for him in the Hereafter, and he who conceals (the faults) of a Muslim, Allah would conceal his faults in the world and in the Hereafter. Allah is at the back of a servant so long as the servant is at the back of his brother, and he who treads the path in search of knowledge, Allah would make that path easy, leading to Paradise for him and those persons who assemble in the house among the houses of Allah (mosques) and recite the Book of Allah and they learn and teach the Qur'an (among themselves) there would descend upon them tranquility and mercy would cover them and the angels would surround them and Allah mentions them in the presence of those near Him, and he who is slow-paced in doing good deeds, his (high) lineage does not make him go ahead.
ابومعاویہ نے اعمش سے، انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا نہیں ہوتا، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا درس و تدریس کرتے ہیں مگر ان پر سکینت (اطمینان و سکون قلب) کا نزول ہوتا ہے اور (اللہ کی) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین میں جو اس کے پاس ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتا ہے اور جس کے عمل نے اسے (خیر کے حصول میں) پیچھے رکھا، اس کا نسب اسے تیز نہیں کر سکتا۔
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 6853 ´مومن پر سے کوئی سختی دنیا کی دور کرنا` «. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مومن پر سے کوئی سختی دنیا کی دور کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دور کرے گا . . .“ [صحيح مسلم/كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ: 6853] فقہ الحدیث ➊ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” یہ ایک عظیم حدیث ہے، جس نے کئی علوم، قواعد اور آداب کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔ حدیث میں پریشانی کو ہٹانے سے مراد ہے کہ اس کو زائل کیا جائے، نیز حدیث میں فضیلت کے کئی کام بتائے گئے ہیں، مثلاً: جیسے بھی ممکن ہو، مسلمانوں کو نفع پہنچایا جائے، ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ علم، مال یا باہمی تعاون کے ذریعے سے کسی مصلحت یا نصیحت کی طرف اشارہ کر کے یا کسی اور انداز سے دوسروں کے فائدے کا باعث بننا چاہیے۔ اسی طرح مسلمانوں کی پردہ پوشی، تنگ دست کو مہلت دینا، حصول علم کے لیے سفر کرنا یہ سب فضیلت کے کام ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم میں مشغول رہنا کتنا سود مند ہے ہے۔ یاد رہے کہ یہاں علم سے مراد علم شرعی ہے، بشرطیکہ مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو، اگرچہ یہ شرط تو ہر عمل کے لیے درکار ہوتی ہے لیکن علماء عام طور پر علم کو اس شرط کے ساتھ ضرور مقید کرتے ہیں، کیوں کہ بعض لوگوں کے ہاں اس میں کبھی تساہل بھی پایا جاتا ہے، خاص طور پر اس راستے کے ابتدائی مسافر اخلاص نیت میں غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ➋ یہ حدیث بتاتی ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی تعلیم و تدریس کے لئے مساجد، مدارس یا دیگر مقامات پر اکٹھا ہونا بھی نہایت فضیلت والا کام ہے، اس حدیث سے اور دیگر کئی دلائل سے قرآن و حدیث کی تدریس کا جواز بھی معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ» [5-المائدة:67] ” اے رسول! آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کیجئے۔“ اسی طرح رسول اللہ نے فرمایا: «بلغو عني ولو آية» ” یعنی میری طرف سے آگے پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہی ہو۔“ اس حدیث کو امیر المؤمنین فی الحدیث، شیخ الاسلام، فقیہ امت محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح [صحيح البخاري: 3461] میں روایت کیا ہے۔ ➌ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ غیبت کرنا اور کسی مسلمان بھائی کا ایسا تذکرہ کرنا جس سے اس بھائی کو تکلیف پہنچے حرام ہے، یہ حکم ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کی غلطیاں اور مفسدات معروف نہیں ہیں، جبکہ ایسا آدمی جو علی الاعلان بدعت و فساد کا داعی ہے، ایسے آدمی کے نقصانات سے والئی مملکت یا کسی معتبر شخصیت کو آگاہ کرنا جائز ہے، اسی طرح اگر آدمی خود کسی کو غلطی و فساد سے روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کسی ایسے آدمی کو اس کے بارے میں بتا دینا درست ہو گا جو اسے غلطی سے روک سکتا ہو، اور اگر کسی آدمی کو گناہ میں ملوث پایا جائے تو اسے خود بھی حتی المقدور منع کرنا ضروری ہے۔ ➍ اس حدیث سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ جہنم کی آگ سے نجات صرف اور صرف ایمان اور اعمال صالحہ سے ہی ممکن ہے، اس معاملے میں حسب و نسب کا کوئی دخل نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی فرمایا تھا: ” اے فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیوں کہ میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے لیے کسی شئے کا اختیار نہیں رکھتا، ہاں! اتنا ہے ضرور کہ تمہارا میرے ساتھ رحم کا رشتہ ہے، میں اس رشتے کے حقوق و واجبات ادا کرتا رہوں گا۔“ [صحیح مسلم: 204] اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ” اے میری بیٹی فاطمہ! میرے مال میں سے تم جو مانگنا چاہو، مجھ سے مانگ لو، میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکوں گا۔“ [صحیح البخاری: 2753] ذرا غور کیجئیے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مومنہ بیٹی سے کیا فرما رہے ہیں؟ جبکہ آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا ٹکڑا ہیں، اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہیں، اور ان کے بالمقابل وہ آدمی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا فقط دعویٰ کرتا ہے، جبکہ عقیدہ و عمل میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا مخالف ہے، کیسے یہ گمان کر سکتا ہے کہ روز محشر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی سفارش کے ذریعے سے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔۔۔۔؟ ➎ فواد عبدالباقی رحمہ اللہ اور دیگر عربی نسخوں میں سند یوں ہے: «حدثنا الاعمش حدثنا ابن نمير عن ابي صالح» جبکہ یہ خطا ہے، درست سند اس طرح ہے: «حدثنا الاعمش قال ابن نمير عن ابي صالح» لہٰذا اس کی تصحیح کر لیجئیے، یاد رہے کہ صحیح مسلم کا عمدہ ترین نسخہ وہ ہے جو ہند و پاک میں متداول ہے، جیسا کہ میں نے ریاض (شہر) میں بعض عربی بھائیوں کی مجلس میں ثابت کیا تھا۔ «والحمدلله» ➏ سلیمان بن مہران الاعمش حدیث کے ایک راوی ہیں، آپ کی تدلیس مشہور ہے، جیسا کہ کتب رجال میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تنبیہ: صحیح بخاری و مسلم میں مدلس راوی کی روایت (خواہ وہ معنعن ہو) سماع پر محمول ہوتی ہے، یا اس کے متابعات کی بنا پر وہ صحیح سمجھی جاتی ہے، یہ قاعدہ اصول حدیث کی کتب میں بالتفصیل موجود ہے، برخلاف ان لوگوں کے جو اسے تسلیم نہیں کرتے۔ ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 134، حدیث\صفحہ نمبر: 10