You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُنْذِرًا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ: اسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَذْيِ مِنْ أَجْلِ فَاطِمَةَ، فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ فَسَأَلَهُ فَقَالَ: «مِنْهُ الْوُضُو
Ali reported: I felt shy of asking about prostatic fluid from the Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) because of Fatimah. I, therefore, asked al-Miqdad (to ask on my behalf) and he asked. He (the Holy Prophet) said: Ablution is obligatory in such a case.
شعبہ نے سلیمان اعمش سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میں نے حضرت فاطمہ ؓ ( کے ساتھ رشتے) کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ سے مذی کےبارے میں پوچھنے میں شرم محسوس کی تو میں نے مقداد کو کہا، انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا ، آپ نے فرمایا:’’اس سے وضو (کرنا پڑتا) ہے ۔ ‘‘
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 64 ´وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان` «. . . وعن على بن ابي طالب رضى الله عنه قال: كنت رجلا مذاء فامرت المقداد ان يسال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فساله فقال: فيه الوضوء . . .» ”. . . سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کثرت سے مذی کے خارج ہونے کا مریض تھا۔ میں نے مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کریں۔ مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا (کہ اس کی وجہ سے وضو کرنا ہو گا یا غسل جنابت؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایسی حالت میں وضو ہی ہے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 64] لغوی تشریح: «مَذَّاءً» ”ذال“ پر تشدید ہے۔ یہ معالغے کا صیغہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مجھے بکثرت مذی آتی ہے۔ مذی کیا ہے؟ مذی رقیق اور لیس دار پانی ہے جو بیوی سے بوس و کنار اور جماع کی یاد اور ارادے کے وقت مرد کی شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے۔ «فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ» سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو مسئلے کی بابت پوچھنے کے لیے کہا، اس لیے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ حیاداری کے پیش نظر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے براہ راست سوال کرنے سے گریز کیا۔ راوی حدیث: SR سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ ER ”میم“ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: مقداد بن عمرو بن ثعلبة البھراني اور حلف کی وجہ سے الکندی کہلائے۔ ان کی کنیت ابوالاسود یا ابوعمرو ہے اور مقداد بن اسود کے نام سے مشہور ہیں۔ اور اسود سے مراد اسود بن یغوث زہری ہے۔ چونکہ اس نے مقداد کو متبنی (منہ بولا بیٹا) بنا لیا تھا اور جاہلیت میں اس کے ساتھ حلیفانہ تعلقات و روابط قائم کر لیے تھے، چنانچہ اس کی طرف نسبت کے ساتھ مشہور ہو گئے۔ اسلام لانے والوں میں ان کا چھٹا نمبر ہے۔ دو مرتبہ ہجرت کے شرف سے شرف یاب ہوئے۔ کبار، فضلاء اور بہترین اوصاف و خصائل کے مالک صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ عہد رسالت میں واقع ہونے والے تمام غزوات میں شریک رہے۔ معرکہ بدر کے روز گھڑ سواروں میں شامل تھے۔ فتح مصر میں حاضر تھے۔ 33 ہجری میں جوف کے مقام پر، جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے، وفات پائی۔ ان کی میت کو مدینہ لایا گیا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع میں دفن کیے گئے۔ اس وقت ان کی عمر 70 برس تھی۔ بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 64