You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ، الَّذِي مَجَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرِهِمْ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ
Mahmud b. al-Rabi', on whose face the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) squirted water from the well, reported on the authority of 'Ubada b. as- Samit that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: He who does not recite Umm al-Qur'an is not credited with having observed prayer.
صالح نے ابن شہاب سے روایت کی کہ حضرت محمود بن ربیعرضی اللہ عنہ نے ، جن کے چہرے پر رسول اللہﷺ نے ان کے کنویں سے کلی کر کے پانی کا چھینٹا دیا تھا، انہیں بتایا کہ حضرت عبادہ بن صامترضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جس نے ام القریٰ کی قراءت نہ کی، اس کی کوئی نماز نہیں۔‘‘
علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 756 ´سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں` «. . . لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب .» ”۔۔۔جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔“ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 756] تفقہ اب یہ حدیث شریف بعمومہ امام، مقتدی اور منفرد، تینوں کو شامل ہے۔ اور اس کے عام ہونے پر لفظ «من» دال ہے جو کہ الفاظ عموم میں سے ہے اور جیسے یہ حدیث شریف ہر مصلیٰ کو عام ہے ویسے ہر نماز (فرض ہو خواہ نفل) کو بھی عام ہے اور اس عموم پر لفظ «لا صلوٰة» دلالت کرتا ہے او اس عام کو خاص کرنے کے لئے جو دلائل پیش کیے گئے ہیں وہ سب بےسروپا ہیں۔ اس لئے: ◈ امام خطابی نے لکھا ہے کہ: «هذا عموم لا يجوز يخصيصه الا بدليل» [معام السنن: 177/1] ”اس حدیث شریف کا حکم عام ہے اور اس سے کسی فرد کو خاص کرنا بغیر کسی دلیل کے جائز نہیں ہے۔“ اور اسی طرح: ◈ امام المغرب ابن عبدالبر النمری (جن کی اگر علمی حیثیت معلوم کرنی ہو تو ان کے تلمیذ رشید فخر الاندلس ابن حزم کی تصانیف کی طرف رجوع کیجئے) وہ بھی اس مذکورہ حدیث شریف کے عموم کے قائل ہیں۔ چنانچہ اپنی مایہ ناز قابل فخر کتاب ” التمہید“ میں اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ: «عام لا خصه شيء لان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يخص بقوله ذلك مصليا من مصل» [التمهيد: 442/4] ”یہ حدیث عام ہے اور اس کو خاص کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مذکور قول مبارک سے کسی نمازی کو خاص نہیں کیا ہے (تو آپ کی تخصیص کے بغیر یہ عام کیونکر خاص ہو سکتا ہے)“ پھر اگر کوئی کہے کہ «لا صلوٰة» میں کلمہ «لا» سے مراد نفی کمال کی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہاں «لا» سے نفی کمال کی مراد لینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ یہ دو وجہ سے جائز نہیں ہے: اولاً: کلمہ «لا» نفی جنس کے واسطے ہے اور یہ کلمہ ذات کی نفی کے لیے موضوع ہوا ہے نہ کہ نفی کمال کے لیے۔ پس معنیٰ حقیقی سے بلاوجہ اعراض کر کے نفی کمال مراد لینا ہرگز جائز نہیں اور اگر فرض کیا جائے کہ انتقاء ذات صلوٰۃ غیر ممکن ہے تو اس تقدیر پر بھی صحت کی طرف سے رجوع ہو گا نہ کہ کمال کی طرف۔ کیونکہ نفی صحت اور نفی کمال اگرچہ دونوں مجازی معنیٰ ہیں لیکن نفی صحت کی «اقرب الى الحقيقة» ہے اور بر تقدیر عدم استقامت معنی حقیقی کے «اقرب المجاز» میں مراد لینا بالاجماع اولیٰ ہے۔ (یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی عبارت سے دو مجازی مفہوم نکلتے ہوں تو جو مفہوم حقیقت کے قریب ہو گا، وہی قابل قبول ہو گا۔) ◈ علامہ آلوسی فرماتے ہیں: «والحمل على المجاز الاقرب عند تعذر الحقيقة اولي بل واجب بالاجماع» ”حقیقی معنی معتذر ہونے وقت مجاز اقرب پر محمول کرنا اولیٰ بلکہ واجب بالا جماع ہے۔“ [تفسير روح المعاني] ثانیاً: دوسری وجہ یہ ہے کہ دارقطنی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم کی بعض روایات میں لفظ «لا تجزئ» واقع ہوا ہے۔ پھر یہاں نفی کمال کی مراد لینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ کیونکہ [الاحاديث يفسر بعضها بعضا] ◈ امام بیہقی کے جزء القراۃ میں مرفوعاً مروی ہے کہ: «لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب خلف الامام» ”جس نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی نماز نہیں ہے۔“ [جزء القراة: 56] اور اس حدیث شریف کے متعلق امام بیہقی کا یہ فیصلہ ہے کہ: «اسناده صحيح والزيادة التى فيه صحيحة مشهورة من اوجه كثيرة» [جزء القراة: 56] ↰ ”اس حدیث کی اسناد صحیح ہے اور جو اس میں خلف الامام کی زیادتی ہے وہ بھی صحیح اور مشہور ہے (کیونکہ) بہت سی وجوہ سے مروی ہے۔“ ◈ طبرانی کی کتاب مسند الشامیین میں بایں الفاظ مبارکہ مروی ہے کہ: «من صلى خلف الامام فليقرا بفاتحة الكتاب» ”جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے اس کو سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے۔“ ↰ اور یہ حدیث بالکل صحیح اور قابل اعتبار ہے اور اس کا عکس حافظ ہیثمی کی کتاب ”مجمع الزوائد“ میں اس طرح ملتا ہے کہ: «رجاله موثقون» اس حدیث کے راوی سب پختہ اور معتبر ہیں۔ [مجمع الزوائد للھیثمی: 111/2] اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 20