You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَبْدَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَانَ يَجْهَرُ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ يَقُولُ: «سُبْحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، تَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ‘وَعَنْ قَتَادَةَ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَيْهِ يُخْبِرُهُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ قَالَ: " صَلَّيْتُ خَلَفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، فَكَانُوا يَسْتَفْتِحُونَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا يَذْكُرُونَ {بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1] فِي أَوَّلِ قِرَاءَةٍ وَلَا فِي آخِرِهَا
Abda reported: 'Umar b. al-Khattab used to recite loudly these words: Subhanak Allahumma wa bi hamdika wa tabarakasmuka wa ta'ala jadduka wa la ilaha ghairuka [Glory to Thee,0 Allah, and Thine is the Praise, and Blessed is Thy Name. and Exalted is Thy Majesty. and there is no other object of worship beside Thee]. Qatada informed in writing that Anas b. Malik had narrated to him: I observed prayer behind the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and Abu Bakr and Umar and 'Uthman. They started (loud recitation) with: AI-hamdu lillahi Rabb al-'Alamin [All Praise is due to Allah, the Lord of the worlds] and did not recite Bismillah ir- Rahman-ir-Rahim (loudly) at the beginning of the recitation or at the end of it.
وزاعی نے عبدہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ کلمات بلند آواز سے پڑھتے تھے: سبحانک اللہم! وبحمدک، تبارک اسمک وتعالی جدک، ولا إلہ غیرک ’’اے اللہ! تو اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے۔ تیرا نام بڑا بابرکت ہے اور تیری عظمت وشان بڑی بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘(نیز اوزاعی ہی کی) قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت انسرضی اللہ عنہ سے (اپنی) روایت کی خبر دیتے ہوئے ان (اوزاعی) کی طرف لکھ بھیجا کہ انہوں نے (انسرضی اللہ عنہ ) نے قتادہ کو حدیث سنائی، کہا: میں نے نبیﷺ، ابو بکر، عمر اورعثمان کے پیچھے نماز پڑھی ہے، وہ (نماز کا) آغاز الحمد للہ رب العالمین سے کرتے تھے، وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم (بلند آواز سے) نہیں کہتے تھے، نہ قراءت کے شروع میں اور نہ اس کے آخر میں ہی (دوسری سورت کے آغاز پر
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 219 ´نماز میں سورہ فاتحہ سے قرأت کا آغاز` «. . . وعن انس رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم وابا بكر وعمر كانوا يفتتحون الصلاة بالحمد لله رب العالمين . . .» ”. . . حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سب نماز کا آغاز «الحمد لله رب العالمين» سے کرتے تھے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 219] لغوی تشریح: «لَا يَذْكُرُونَ بِسْمِ اللهِ» بسم اللہ ذکر نہیں کرتے تھے۔ یہ فقرہ اس پر دلالت نہیں کرتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مطلقاً بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہ تو صرف اس پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ کو جہری (بآواز بلند) نہیں پڑھتے تھے۔ «يُسِرُّوْنَ» «إسرار» سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بسم اللہ بغیر آواز نکالے آہستہ آہستہ پڑھتے تھے۔ «وَعَلٰي هٰذَا» بسم اللہ کو بے آواز، یعنی سراً پڑھنے پر۔ «يُحْمَلُ» صیغہ مجہول۔ محمول کیا جائے گا۔ «النَّفْيُ» بسم اللہ کی نفی کو۔ «فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ» مسلم کی وہ روایت جو ابھی بیان کی گئی ہے۔ «خِلَافًا لِمَنْ أَعَلَّهَا» یعنی جو شخص یہ کہتا ہے کہ صحیح مسلم میں بسم اللہ کی نفی کا جو اضافہ ہے یہ معلول ہے، وہ اس (سراً بسم اللہ پڑھنے والی) توجیہ کی مخالفت کرتا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے کہ نفی کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، تاہم یہ روایت معلول ہو گی۔ لیکن اس بات کے ذریعے سے اس حدیث کے معلول ہونے کی دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔ علت دراصل یہ ہے کہ امام اوزاعی نے یہ اضافہ قتادہ کے واسطے سے مکا تبتاً نقل کیا ہے، حالانکہ یہ علت درست نہیں کیونکہ اوزاعی اس کے روایت کرنے میں تنہا نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی اس کو روایت کرنے والے ہیں جن کی روایت صحیح ہے، لہٰذا نفی کی وہ تاویل صحیح ہے جو پہلے گزر چکی ہے۔ [تحفة الأحوذي: 204/1] فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ سے قرأت کا آغاز کرتے اور بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے۔ ➋ بعض روایات میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا بھی ثبوت ہے، اس لیے بسم اللہ کو آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھنا دونوں طرح جائز ہے، تاہم اکثر اور زیادہ صحیح روایات کی رو سے آہستہ پڑھنا ہی ثابت ہے۔ بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 219