You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ:، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ فِي غَزْوَةِ مُؤْتَةَ، فَرَافَقَنِي مَدَدٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، لَيْسَ مَعَهُ غَيْرُ سَيْفِهِ، فَنَحَرَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ جَزُورًا، فَسَأَلَهُ الْمَدَدِيُّ طَائِفَةً مِنْ جِلْدِهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، فَاتَّخَذَهُ كَهَيْئَةِ الدَّرْقِ، وَمَضَيْنَا، فَلَقِينَا جُمُوعَ الرُّومِ، وَفِيهِمْ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ لَهُ أَشْقَرَ، عَلَيْهِ سَرْجٌ مُذْهَبٌ، وَسِلَاحٌ مُذْهَبٌ، فَجَعَلَ الرُّومِيُّ يُغْرِي بِالْمُسْلِمِينَ، فَقَعَدَ لَهُ الْمَدَدِيُّ خَلْفَ صَخْرَةٍ، فَمَرَّ بِهِ الرُّومِيُّ فَعَرْقَبَ فَرَسَهُ، فَخَرَّ وَعَلَاهُ، فَقَتَلَهُ، وَحَازَ فَرَسَهُ وَسِلَاحَهُ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُسْلِمِينَ، بَعَثَ إِلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَأَخَذَ مِنَ السَّلَبِ، قَالَ عَوْفٌ: فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا خَالِدُ! أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّي اسْتَكْثَرْتُهُ، قُلْتُ: لَتَرُدَّنَّهُ عَلَيْهِ، أَوْ لَأُعَرِّفَنَّكَهَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِ، قَالَ عَوْفٌ: فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ قِصَّةَ الْمَدَدِيِّ، وَمَا فَعَلَ خَالِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >يَا خَالِدُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟<، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَقَدِ اسْتَكْثَرْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >يَا خَالِدُ! رُدَّ عَلَيْهِ مَا أَخَذْتَ مِنْهُ<، قَالَ عَوْفٌ: فَقُلْتُ لَهُ: دُونَكَ يَا خَالِدُ، أَلَمْ أَفِ لَكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >وَمَا ذَلِكَ؟<، فَأَخْبَرْتُهُ، قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: >يَا خَالِدُ! لَا تَرُدَّ عَلَيْهِ، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي أُمَرَائِي؟ لَكُمْ صَفْوَةُ أَمْرِهِمْ وَعَلَيْهِمْ كَدَرُهُ<.
Awf bin malik Al Ashjai said “I went out with Zaid bin Harith in the battle of Mutah. For the reinforcement of the Muslim army a man from the people of Yemen accompanied me. He had only his sword with him. A man from the Muslims slaughtered a Camel. The man for the reinforcement asked him for a part of its skin which he gave him. He made it like the shape of a shield. We went on and met the Byzantine armies. There was a man among them on a reddish horse with a golden saddle and golden weapons. This Byzantinian soldiers began to attack the Muslims desperately. The man for reinforcement sat behind a rock for (attacking) him. He hamstrung his horse and overpowered him and then killed him. He took his horse and weapons. When Allah, Most High, bestowed victory on the Muslims. Khalid bin Al Walid sent for him and took his spoils. Awf said “I came to him and said “Khalid, do you know that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم had decided to give spoils to the killer? He said “Yes, I thought it abundant. I said “You should return it to him, or I shall tell you about it before the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم. But he refused to return it. Awf said “We then assembled with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم. I told him the story of the man of reinforcement and what Khalid had done. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم said “Khalid, what made you do the work you have done?” He said “Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم, I considered it to be abundant. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم said “Khalid, return it to him what you have taken from him. ” Awf said “I said to him “here you are, Khalid. Did I not keep my word? The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم said “What is that? I then informed him. ” He said “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم became angry and said “Khalid, do not return it to him. Are you going to leave my commanders? You may take from them what is best for you and eave to them what is worst.
سیدنا عوف بن مالک اشجعی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا زید بن حارثہ ؓ کے ساتھ غزوہ موتہ میں روانہ ہوا ۔ اہل یمن سے جو کمک ہمیں ملی ان میں سے ایک شخص میرے ساتھ ہو لیا ۔ اس کے پاس سوائے ایک تلوار کے اور کچھ نہ تھا ۔ مسلمانوں کے ایک آدمی نے اونٹ ذبح کیا ، تو اس آدمی نے ذبح کرنے والے سے کھال کا ایک حصہ مانگا جو اس نے اس کو دے دیا ۔ پس اس نے اس کو ڈھال کی طرح بنا لیا اور پھر ہم چلتے رہے ۔ ہمیں رومی جماعتوں کا مقابلہ کرنا پڑا ۔ ان میں ایک آدمی اپنے سرخ گھوڑے پر سوار تھا جس کی زین اور ہتھیار سنہری تھے ۔ وہ رومی مسلمانوں پر بڑے سخت حملے کر رہا تھا ۔ تو یمن کی کمک والا یہ آدمی ایک چٹان کی اوٹ میں اس رومی کی تاک میں بیٹھ گیا ۔ جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو اس یمنی نے اس کے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں تو وہ ( رومی ) گر پڑا اور یہ ( یمنی ) خود اس آدمی پر چڑھ بیٹھا اور اسے قتل کر دیا اور اس کا گھوڑا اور اسلحہ لے لیا ۔ اور جب اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح دی تو سیدنا خالد بن ولید ؓ نے اس یمنی کو بلوایا اور اس کے اسباب میں سے کچھ لے لیا ۔ سیدنا عوف ؓ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور کہا : اے خالد ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ ہے کہ سلب قاتل کا ہوتا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ لیکن میں اسے بہت زیادہ سمجھتا ہوں ۔ میں نے کہا : یا تو آپ اسے واپس کر دیں ورنہ میں آپ کی یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتاؤں گا ، مگر انہوں نے اس کو واپس کرنے سے انکار کر دیا ۔ سیدنا عوف ؓ کہتے ہیں پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں جمع ہوئے ، تو میں نے آپ ﷺ سے اس یمنی کا قصہ بیان کیا اور وہ بھی جو خالد ؓ نے کیا تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” خالد ! اس کی کیا وجہ تھی جو تم نے کیا ؟ “ انہوں نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! میں نے اس سلب کو بہت زیادہ سمجھا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” تم نے جو کچھ اس سے لیا وہ اس کو واپس کر دو ۔ “ عوف کہتے ہیں میں نے خالد سے کہا : خالد ! لو اب میں نے جو بات کہی تھی پوری کر دی ؟ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا “ وہ کیا بات تھی ؟ “ میں نے انہیں بتا دی ، تو رسول اﷲ ﷺ غصے ہو گئے اور فرمایا ” خالد ! وہ مت واپس کرو ، کیا تم لوگ میری خاطر میرے امراء سے کوئی رعایت نہیں کر سکتے ؟ ( یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ) ان کے معاملات کی عمدگی اور بھلائی تو تمہارے لیے ہو اور اس کی خرابی کے وہ ہی ذمہ دار ہوں ۔ “
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجھاد ۱۳ (۱۷۵۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۰۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۶، ۲۷)