You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ أَخْبَرَنَا عِيسَى حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ كِلَاهُمَا عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَاللَّفْظُ لِلْأَوْزَاعِيِّ حَدَّثَنِي حَنْظَلَةُ بْنُ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهَا إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ وَأَشْيَاءَ مِنْ الزَّرْعِ فَيَهْلَكُ هَذَا وَيَسْلَمُ هَذَا وَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلَكُ هَذَا وَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا فَلِذَلِكَ زَجَرَ عَنْهُ فَأَمَّا شَيْءٌ مَضْمُونٌ مَعْلُومٌ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَحَدِيثُ إِبْرَاهِيمَ أَتَمُّ و قَالَ قُتَيْبَةُ عَنْ حَنْظَلَةَ عَنْ رَافِعٍ قَالَ أَبُو دَاوُد رِوَايَةُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَنْظَلَةَ نَحْوَهُ
Narrated Hanzlah bin Qais al-Ansari: I asked Rafi bin Khadij about the lease of land for gold and silver (i. e. for dinars and dirhams). There is no harm in it, for the people used to let out land in the time of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم for what grew by the current of water and at the banks of streamlets and at the places of cultivation. So sometimes this (portion) perished and that (portion) was saved, and sometimes this remained intact and that perished. There was no (form of) lease among the people except this. Therefore, he forbade it. But if there is something which is secure and known, then there is no harm in it. The tradition of Ibrahim is more perfect. Qutaibah said: from Hanzalah on the authority of Rafi . Abu Dawud said: A similar tradition has been transmitted by Yahya bin Saeed from Hanzalah.
جناب حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے پوچھا کہ زمین کو سونے چاندی ( نقدی ) کے عوض کرایہ پر دینا کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا : اس میں کوئی حرج نہیں ۔ دراصل لوگ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اس طرح کرتے تھے کہ جو کچھ پانی کے بہاؤ پر اور نالوں کے سروں پر ہوتا اس پر اور کچھ کھیتی پر معاملہ طے کرتے تھے ۔ تو پھر ایسے ہوتا کہ یہ ضائع ہو جاتی اور وہ بچ رہتی یا وہ ضائع ہو جاتی اور یہ بچ رہتی ‘ لوگوں کو کرائے پر دینے کی بس یہی ایک صورت رائج تھی ۔ جس کی وجہ سے آپ ﷺ نے اس معاملے سے ڈانٹ کر روک دیا ۔ لیکن وہ عوض اور بدل جو معلوم و متعین ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ابراہیم کی حدیث ( جو اوپر ذکر ہوئی ) اس سے زیادہ کامل ہے ۔ اور قتیبہ نے اپنی سند میں «عن حنظلة، عن رافع» کہا ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید نے حنظلہ سے اس کے مثل روایت کیا ہے ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث ۷ (۲۳۲۷)، ۱۳ (۲۳۳۳)، ۱۹ (۲۳۴۶)، الشروط ۷ (۲۷۲۲)، صحیح مسلم/البیوع ۱۹ (۱۵۴۷)، سنن النسائی/المزارعة ۲ (۳۹۳۰، ۳۹۳۱، ۳۹۳۲، ۳۹۳۳)، سنن ابن ماجہ/الرھون ۹ (۲۴۵۸)، (تحفة الأشراف: ۳۵۵۳)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/کراء الأرض ۱ (۱)، مسند احمد (۳/۴۶۳، ۴/۱۴۰، ۱۴۲)