You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَرَازِيُّ, أَنَّ قَوْمًا مِنَ الْكَلَاعِيِّينَ سُرِقَ لَهُمْ مَتَاعٌ، فَاتَّهَمُوا أُنَاسًا مِنَ الْحَاكَةِ فَأَتَوُا النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ- صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَحَبَسَهُمْ أَيَّامًا، ثُمَّ خَلَّى سَبِيلَهُمْ، فَأَتَوُا النُّعْمَانَ، فَقَالُوا: خَلَّيْتَ سَبِيلَهُمْ بِغَيْرِ ضَرْبٍ وَلَا امْتِحَانٍ؟! فَقَالَ النُّعْمَانُ: مَا شِئْتُمْ؟! إِنْ شِئْتُمْ أَنْ أَضْرِبَهُمْ, فَإِنْ خَرَجَ مَتَاعُكُمْ فَذَاكَ, وَإِلَّا أَخَذْتُ مِنْ ظُهُورِكُمْ مِثْلَ مَا أَخَذْتُ مِنْ ظُهُورِهِمْ! فَقَالُوا: هَذَا حُكْمُكَ؟ فَقَالَ: هَذَا حُكْمُ اللَّهِ وَحُكْمُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: إِنَّمَا أَرْهَبَهُمْ بِهَذَا الْقَوْلِ, أَيْ: لَا يَجِبُ الضَّرْبُ إِلَّا بَعْدَ الِاعْتِرَافِ<.
Azhar ibn Abdullah al-Harari said: Some goods of the people of Kila' were stolen. They accused some men of the weavers (of theft). They came to an-Numan ibn Bashir, the companion of the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم. He confined them for some days and then set them free. They came to an-Numan and said: You have set them free without beating and investigation. An-Numan said: What do you want? You want me to beat them. If your goods are found with them, then it is all right; otherwise, I shall take (retaliation) from your back as I have taken from their backs. They asked: Is this your decision? He said: This is the decision of Allah and His Messenger صلی اللہ علیہ وسلم. Abu Dawud said: By this statement he frightened them ; that is, beating is not necessary except after acknowledgement.
ازہر بن عبدللہ حرازی سے روایت ہے کہ قبیلہ کلاع کے لوگوں کا کچھ مال چوری ہو گیا ۔ انہوں نے کچھ جولاہوں پر اس کا الزام لگایا ۔ ان لوگوں کو سیدنا نعمان بن بشیر ؓ صحابی رسول ﷺ کے پاس لایا گیا تو انہوں نے ان کو کئی دن قید میں رکھا اور پھر چھوڑ دیا ۔ مال والے سیدنا نعمان ؓ کے پاس آئے اور کہا : آپ نے ان لوگوں کو مارے پیٹے اور تحقیق و تفتیش کے بغیر ہی چھوڑ دیا ہے ۔ تو سیدنا نعمان ؓ نے کہا : تم کیا چاہتے ہو ؟ اگر چاہو تو میں انہیں مارتا ہوں ، اگر تمہارا مال مل گیا تو بہتر ‘ ورنہ اس کا بدلہ تمہاری پیٹھوں سے لوں گا ۔ جس قدر ان کو مارا ہو گا تمہیں بھی ماروں گا ۔ انہوں نے کہا : کیا یہ آپ کا فیصلہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا : یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کا فیصلہ ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ سیدنا نعمان ؓ نے کلاعی لوگوں کو اپنی اس بات سے ڈرایا تھا ۔ اور مقصد واضح کرنا تھا کہ ملزم کو اعتراف کے بعد ہی مارنا درست ہے ۔
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجرم پر جب شبہ ہو تو اس کو پکڑنا صحیح ہے ، مگر ناحق مار پیٹ سے اس سے اقبال جرم کرانا صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر ظلم ہے ، جیسا کہ آج کل میں لوگ کرتے ہیں۔