You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أحمد بن شعيب النسائي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
أَخْبَرَنِي الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَى هُوَ ابْنُ يُونُسَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالدِّينَارِ وَالْوَرِقِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤَاجِرُونَ عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ فَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلِكُ هَذَا وَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلِكُ هَذَا فَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا فَلِذَلِكَ زُجِرَ عَنْهُ فَأَمَّا شَيْءٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَافَقَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَلَى إِسْنَادِهِ وَخَالَفَهُ فِي لَفْظِهِ
It was narrated that Hanzalah bin Qais Al-Ansari said: I asked Rafi' bin Khadij about leasing land in return for Dinars and silver. He said: 'There is nothing wrong with that. During the time of the Messenger of Allah they used to rent land to one another in return for what grew on the banks of streams and where the springs emerged - some areas of which might give good produce and some might give none at all - and the people did not lease land in any other way. So that was forbidden. But as for leases where the return is known and guaranteed, there is nothing wrong with that.'
حضرت حنظلہ بن قیس انصاری سے راویت ہے کہ میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سونے چاندی (روپے پیسے) کے عوض زمین کرائے پر دینے سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ رسول اللہﷺ کے دور میں لوگ اپنی زمینیں نالوں کے ساتھ ساتھ اور نالوں (موہگوں) کے سامنے اگنے والی فصل کے عوض بٹائی پر دیتے تھے۔ کبھی اس حصے کی فصل محفوظ رہتی اور دوسرے حصے کی ضائع ہوجاتی۔ کبھی دوسرے حصے کی فصل محفوظ رہتی اور اس حصے کی فصل ضائع ہوجاتی۔ اس وقت زمین کے کرائے کی یہ شکل ہی رائج تھی‘ اس لیے آپ نے اس سے منع فرمادیا۔ لیکن کوئی اور معلوم اور معین چیز (رقم) مقرر کرلی جائے جن کا کوئی ضامن بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔مالک بن انس نے اس (اوزاعی) کی سند میں موافقت کی ہے اور اس (اوزاعی) کے الفاظ میں ا سکی مخالفت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث ۷ (۲۳۲۷)، ۱۲ (۲۳۳۲)، ۱۹(۲۳۴۶)، الشروط ۷ (۲۷۲۲)، صحیح مسلم/البیوع ۱۹ (۱۵۴۷)، سنن ابی داود/البیوع ۳۱ (۳۳۹۲)، سنن ابن ماجہ/الرہون ۹ (۲۴۵۸) (تحفة الأشراف: ۳۵۵۳)، مسند احمد (۳/۴۶۳، ۴/۱۴۰، ۱۴۲)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۹۳۱-۳۹۳۳) (صحیح)