You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أحمد بن شعيب النسائي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَمَّنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا، ثُمَّ تَابَ وَآمَنَ، وَعَمِلَ صَالِحًا، ثُمَّ اهْتَدَى، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ، سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يَجِيءُ مُتَعَلِّقًا بِالْقَاتِلِ تَشْخَبُ أَوْدَاجُهُ دَمًا، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، ثُمَّ مَا نَسَخَهَا
It was narrated from Salim bin Abi Ja'd that: Ibn 'Abbas was asked about someone who killed a believer deliberately, then he repented, believed and did righteous deeds, and followed true guidance. Ibn 'Abbas said: There is no way the repentance could avail him! I heard the Prophet [SAW] say: 'He (the victim) will come hanging onto his killer, with his jugular veins flowing with blood and saying: O Lord, ask him why he killed me. Then he said: By Allah, Allah revealed it and never abrogated anything of it.'
حضرت سالم بن ابو الجعد سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی مومن کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کر دے، پھر توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرنے لگے اور راہ راست پر آ جائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کے لیے توبہ کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے کہ میں نے تمہارے نبیٔ اکرمﷺ کو فرماتے سنا ہے: ’’مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر لائے گا۔ اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ اس نے مجھے کس جرم میں قتل کیا؟‘‘ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمای: اللہ کی قسم! یقینا یہ آیت اللہ تعالیٰ ہی نے اتاری ہے مگر پھر اسے منسوخ فرما دیا۔
وضاحت: ۱؎: یہ آیت: «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فيها» جو کوئی مؤمن کو عمداً قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا (النساء:۹۳)مدنی ہے اور بقول ابن عباس مدنی زندگی کے آخری دور میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہے۔ اس لیے یہ اس مکی آیت کی بظاہر ناسخ ہے جو سورۃ الفرقان میں ہے: «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق» سے لے کر«إلا من تاب و عمل صالحا» تک اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے۔۔۔۔ مگر جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیے۔۔۔ (الفرقان:۶۸-۷۰)علماء نے تطبیق کی صورت یوں نکالی ہے کہ پہلی آیت کو اس صورت پر محمول کریں گے جب قتل کرنے والا مؤمن کے قتل کو مباح بھی سمجھتا ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی اور وہ جہنمی ہو گا۔ ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ مدنی آیت میں «خلود» سے مراد زیادہ عرصہ تک ٹھہرنا ہے، ایک نہ ایک دن توحید کی بدولت اسے ضرور جہنم سے خلاصی ہو گی۔ یہ بھی جواب دیا جا سکتا ہے کہ آیت میں زجر و توبیخ مراد ہے۔ یا جو بغیر توبہ مر جائے، یہ ساری تاویلات اس لیے کی گئی ہیں کہ جب کفر و شرک کے مرتکب کی توبہ مقبول ہے تو مومن کو عمداً قتل کرنے والے کی توبہ کیوں قبول نہیں ہو گی، یہی وجہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا۔ دیکھئیے (صحیح حدیث نمبر:۲۷۹۹)