You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
و حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ يَا حَكِيمُ إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى قَالَ حَكِيمٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَاءِ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُ ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنْ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ
Narrated `Urwa bin Az-Zubair and Sa`id bin Al-Musaiyab: Hakim bin Hizam said, (Once) I asked Allah's Apostle (for something) and he gave it to me. Again I asked and he gave (it to me). Again I asked and he gave (it to me). And then he said, O Hakim! This property is like a sweet fresh fruit; whoever takes it without greediness, he is blessed in it, and whoever takes it with greediness, he is not blessed in it, and he is like a person who eats but is never satisfied; and the upper (giving) hand is better than the lower (receiving) hand. Hakim added, I said to Allah's Apostle , 'By Him (Allah) Who sent you with the Truth, I shall never accept anything from anybody after you, till I leave this world.' Then Abu Bakr (during his caliphate) called Hakim to give him his share from the war booty (like the other companions of the Prophet ), he refused to accept anything. Then `Umar (during his caliphate) called him to give him his share but he refused. On that `Umar said, O Muslims! I would like you to witness that I offered Hakim his share from this booty and he refused to take it. So Hakim never took anything from anybody after the Prophet till he died.
ہم سے عبد ان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب نے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کرلے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہوگی۔ اس کا حال اس شخص جیسا ہوگا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا ( یاد رکھو ) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اب اس کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہوجاؤں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حکیم رضی اللہ عنہ کو ان کا معمول دینے کو بلاتے تو وہ لینے سے انکار کردیتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں ان کا حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لینے سے انکار کردیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمانو! میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ غرض حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وفات پاگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مال فے یعنی ملکی آمدنی سے ان کا حصہ ان کو دینا چاہتے تھے مگر انہوں نے وہ بھی نہیں لیا۔
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوخالد قریشی اسدی ہے۔ یہ حضرت ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں۔ واقعہ فیل سے تیرہ سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوئے۔ یہ قریش کے معزز ترین لوگوں میں سے ہیں۔ جاہلیت اور اسلام ہر دو زمانوں میں بڑی عزت ومنزلت کے مالک رہے۔ فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔ 64ھ میں اپنے مکان کے اندر مدینہ میں وفات پائی۔ ان کی عمر ایک سوبیس سال کی ہوئی۔ ساٹھ سال عہد جاہلیت میں گزارے اور ساٹھ سال زمانہ اسلام میں زندگی پائی۔ بڑے زیرک اور فاضل متقی صحابہ میں سے تھے زمانہ جاہلیت میں سوغلاموں کو آزاد کیا۔ اور سو اونٹ سواری کے لیے بخشے۔ وفات نبوی کے بعد یہ مدت تک زندہ رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی دس سال کی زندگی پائی۔ مگر کبھی ایک پیسہ بھی انہوں نے کسی سے نہیں لیا۔ جو بہت بڑے درجے کی بات ہے۔ اس حدیث میں حکیم انسانیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قانع اور حریص کی مثال بیان فرمائی کہ جو بھی کوئی دنیاوی دولت کے سلسلہ میں قناعت سے کام لے گا اور حرص اور لالچ کی بیماری سے بچے گا اس کے لیے برکتوں کے دروازے کھلیں گے اور تھوڑا مال بھی اسکے لیے کافی ہوسکے گا۔ اس کی زندگی بڑے ہی اطمینان اور سکون کی زندگی ہوگی۔ اور جو شخص حرص کی بیماری اور لالچ کے بخار میں مبتلا ہوگا اس کا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا خواہ اس کو ساری دنیا کی دولت حاصل ہوجائے وہ پھر بھی اسی چکر میں رہے گا کہ کسی نہ کسی طرح سے اور زیادہ مال حاصل کیا جائے۔ ایسے طماع لوگ نہ اللہ کے نام پر خرچ کرنا جانتے ہیں نہ مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ نہ کشادگی کے ساتھ اپنے اور اپنے اہل وعیال ہی پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بہت ہی بھیانک تصویر نظرآتی ہے۔ فحر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی حقائق کو اس حدیث مقدس میں بیان فرمایا ہے۔