You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى مَكَّةَ ثُمَّ قَدِمْنَا جَمْعًا فَصَلَّى الصَّلَاتَيْنِ كُلَّ صَلَاةٍ وَحْدَهَا بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ وَالْعَشَاءُ بَيْنَهُمَا ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ قَائِلٌ يَقُولُ طَلَعَ الْفَجْرُ وَقَائِلٌ يَقُولُ لَمْ يَطْلُعْ الْفَجْرُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ حُوِّلَتَا عَنْ وَقْتِهِمَا فِي هَذَا الْمَكَانِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ فَلَا يَقْدَمُ النَّاسُ جَمْعًا حَتَّى يُعْتِمُوا وَصَلَاةَ الْفَجْرِ هَذِهِ السَّاعَةَ ثُمَّ وَقَفَ حَتَّى أَسْفَرَ ثُمَّ قَالَ لَوْ أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَفَاضَ الْآنَ أَصَابَ السُّنَّةَ فَمَا أَدْرِي أَقَوْلُهُ كَانَ أَسْرَعَ أَمْ دَفْعُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ
Narrated `Abdur-Rahman bin Yazid: I went out with `Abdullah , to Mecca and when we proceeded to am' he offered the two prayers (the Maghrib and the `Isha') together, making the Adhan and Iqama separately for each prayer. He took his supper in between the two prayers. He offered the Fajr prayer as soon as the day dawned. Some people said, The day had dawned (at the time of the prayer), and others said, The day had not dawned. `Abdullah then said, Allah's Apostle said, 'These two prayers have been shifted from their stated times at this place only (at Al-Muzdalifa); first: The Maghrib and the `Isha'. So the people should not arrive at Al-Muzdalifa till the time of the `Isha' prayer has become due. The second prayer is the morning prayer which is offered at this hour.' Then `Abdullah stayed there till it became a bit brighter. He then said, If the chief of the believers hastened onwards to Mina just now, then he had indeed followed the Sunna. I do not know which proceeded the other, his (`Abdullah's) statement or the departure of `Uthman . `Abdullah was reciting Talbiya till he threw pebbles at the Jamrat-Al- `Aqaba on the Day of Nahr (slaughtering) (that is the 10th of Dhul-Hijja).
ہم سے عبداللہ بن رجاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحق نے، ان سے عبدالرحمن بن یزید نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ کے طرف نکلے (حج شروع کیا ) پھر جب ہم مزدلفہ آئے تو آپ نے دو نمازیں (اس طرح ایک ساتھ ) پڑھیں کہ ہر نماز ایک الگ اذان اور ایک الگ اقامت کے ساتھ تھی اور رات کا کھانا دونوں کے درمیان میں کھایا، پھر طلوع صبح کے ساتھ ہی آپ نے نماز فجر پڑھی، کوئی کہتا تھا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہو گئی۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ دونوں نمازیں اس مقام سے ہٹا دی گئیں ہیں، یعنی مغرب اور عشاء، مزدلفہ میں اس وقت داخل ہوں کہ اندھیرا ہو جائے اور فجر کی نماز اس وقت۔ پھر عبداللہ اجالے تک وہیں مزدلفہ میں ٹھہرے رہے اور کہا کہ اگر امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس وقت چلیں تو یہ سنت کے مطابق ہوگا۔ (حدیث کے راوی عبدالرحمن بن یزید نے کہا ) میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ الفاظ ان کی زبان سے پہلے نکلے یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روانگی پہلے شروع ہوئی، آپ دسویں تاریخ تک جمرہ عقبہ کی رمی تک برابر لبیک پکارتے رہے۔
یعنی حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مزدلفہ سے لوٹے، سنت یہی ہے کہ مزدلفہ سے فجر کی روشنی ہونے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔ فجر کی نماز سے متعلق اس حدیث میں جو وارد ہے کہ وہ ایسے وقت میں پڑھی گئی کہ لوگوں کو فجر کے ہونے میں شبہ ہو رہا تھا، اس کی وضاحت مسلم شریف کی حدیث میں موجود ہے جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاءکو ملا کر ادا کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ثم اضطجع حتی طلع الفجر فصلی الفجر حین تبین لہ الصبح باذان و اقامۃ الی اخر الحدیث پھر سو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے جب کہ فجر طلوع ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کھل جانے پر نماز فجر کو ادافرمایا اور اس کے لیے اذان اور اقامت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ پچھلی حدیث میں راوی کی مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کو اندھیرے میں بہت اول وقت یعنی فجر ظاہر ہوتے ہی فوراً ادا فرما لیا، یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی نماز فجر غلس یعنی اندھیرے میں ادا فرمایا کرتے تھے جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے مگر یہاں اور بھی اول وقت طلوع فجر کے فوراً بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کو ادا فرما لیا۔