You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا كَانَتْ الْأَنْصَارُ إِذَا حَجُّوا فَجَاءُوا لَمْ يَدْخُلُوا مِنْ قِبَلِ أَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ وَلَكِنْ مِنْ ظُهُورِهَا فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَدَخَلَ مِنْ قِبَلِ بَابِهِ فَكَأَنَّهُ عُيِّرَ بِذَلِكَ فَنَزَلَتْ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا
Narrated Abu 'Is-haq: I heard Al-Bara' saying, The above Verse was revealed regarding us, for the Ansar on returning from Hajj never entered their houses through the proper doors but from behind. One of the Ansar came and entered through the door and he was taunted for it. Therefore, the following was revealed: -- It is not righteousness That you enter the houses from the back, But the righteous man is He who fears Allah, Obeys His order and keeps away from What He has forbidden So, enter houses through the proper doors. (2.189)
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ انصار جب حج کے لیے آتے تو (احرام کے بعد ) گھروں میں دروازوں سے نہیں جاتے بلکہ دیواروں سے کود کر (گھر کے اندر ) داخل ہوا کرتے تھے پھر (اسلام لانے کے بعد ) ایک انصاری شخص آیا اور دروازے سے گھر میں داخل ہو گیا اس پر لوگوں نے لعنت ملامت کی تو یہ وحی نازل ہوئی کہ ” یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ گھروں میں پیچھے سے (دیواروں پر چڑھ کر ) آؤ بلکہ نیک وہ شخص ہے جو تقویٰ اخیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو۔ “
عہد جاہلیت میں قریش کے علاوہ عام غریب لوگ حج سے واپس ہوتے وقت گھروں کے دروازوں سے آنا معیوب سمجھتے اور دورازے کا سایہ سر پر پڑنا منحوس جانتے، اس لیے گھروں کی دیواروں سے پھاند کر آتے۔ قرآن مجید نے اس غلط خیال کی تردید۔ وہ آنے والا انصاری جس کا روایت میں ذکر ہے قطبہ بن عامر انصاری تھا۔ ابن خزیمہ اور حاکم کی روایت میں اس کی صراحت ہے اس کا نام رفاعہ بن تابوت بتایا ہے۔ قرآن مجید کی آیت مذکورہ اسلامی اساسی امور کے بیان پر مشتمل ہے۔ آنے والے بزرگ کی تفصیلات کے سلسلے میں حافظ ابن حجر کا بیان یہ ہے : فی صحیحہما من طریق عمار بن زریق عن الاعمش عن ابی سفیان عن جابر قال کانت قریش تدعی الحمس و کانوا یدخلون من الابواب فی الاحرام و کانت الانصار و سائر العرب لا یدخلون من الابواب فبینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی بستان فخرج من بابہ فخرج معہ قطبۃ بن عامر الانصاری فقالوا یا رسول اللہ ان قطبۃ رجل فاجر فانہ خرج معک من الباب فقال ماحملک علی ذٰلک فقال رایتک فعلتہ ففعلت کما فعلت قال انی احمس قال فان دینی دینک فانزل اللہ الایۃ ( فتح الباری ) یعنی قریش کو حمس کے نام سے پکارا جاتا تھا اور صرف وہی حالت احرام میں اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہو سکتے تھے، ایسا عہد جاہلیت کا خیال تھا اور انصار بلکہ تمام اہل عرب اگر حالت احرام میں اپنے گھروں کو آتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے بلکہ پیچھے کی دیوار پھاند کر گھر آیا کرتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ کے دروازے سے باہر تشریف لائے تو آپ کے ساتھ یہ قطبہ بن عامر انصاری بھی دروازے سے ہی آگئے۔ اس پر لوگوں نے ان کو لعن طعن شروع کی بلکہ فاجر تک کہہ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے بھی ایسا کیا کیوں؟ تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے کیا تو آپ کی اتباع میں میں نے بھی ایسا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو حمسی ہوں انہوں نے کہا کہ حضور دین اسلام جو آپ کا ہے وہی میرا ہے۔ اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔