You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ خَالِدٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا لِأَحَدٍ بَعْدِي وَإِنَّمَا حَلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا يُلْتَقَطُ لُقْطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ وَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِلَّا الْإِذْخِرَ لِصَاغَتِنَا وَلِسُقُفِ بُيُوتِنَا فَقَالَ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَقَالَ عِكْرِمَةُ هَلْ تَدْرِي مَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا هُوَ أَنْ تُنَحِّيَهُ مِنْ الظِّلِّ وَتَنْزِلَ مَكَانَهُ قَالَ عَبْدُ الْوَهَّابِ عَنْ خَالِدٍ لِصَاغَتِنَا وَقُبُورِنَا
Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle said, Allah made Mecca a sanctuary and it was neither permitted for anyone before, nor will it be permitted for anyone after me (to fight in it). And fighting in it was made legal for me for a few hours of a day only. None is allowed to uproot its thorny shrubs or to cut down its trees or to chase its game or to pick up its Luqata (fallen things) except by a person who would announce it publicly. `Abbas bin `Abdul-Muttalib requested the Prophet, Except Al-Idhkhir, for our goldsmiths and for the roofs of our houses. The Prophet said, Except Al-Idhkhir. `Ikrima said, Do you know what is meant by chasing its game? It is to drive it out of the shade and sit in its place. Khalid said, (`Abbas said: Al-Idhkhir) for our goldsmiths and our graves.
ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا،، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت ولا شہر قرار دیا ہے۔ یہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی ایک دن چند لمحات کے لیے لیے حلال ہوا تھا۔ سوا اب اس کی نہ گھاس کاٹی جائے، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں، نہ اس کے شکار بھگائے جائیں، اور نہ اس میں کوئی گری ہوئی چیز اٹھائی جائے۔ صرف معرف ( یعنی گمشدہ چیز کو اصل مالک تک اعلان کے ذریعہ پہنچانے والے ) کو اس کی اجازت ہے۔ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اذخر کے لیے اجازت دے دیجئے، کہ یہ ہمارے سناروں اور ہمارے گھروں کی چھتوں کے کام میں آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذخر کی اجازت دے دی۔ عکرمہ نے کہا، یہ بھی معلوم ہے کہ حرم کے شکار کو بھگانے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ( کسی درخت کے سائے تلے اگر وہ بیٹھا ہوا ہو تو ) تم سائے سے اسے ہٹا کر خود وہاں بیٹھ جاؤ۔ عبدالوہاب نے خالد سے ( اپنی روایت میں یہ الفاظ ) بیان کئے کہ ( اذخر ) ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے کام میں آتی ہے۔
یعنی بجائے چھتوں کے عبدالوہاب کی روایت میں قبروں کا ذکر ہے۔ عرب لوگ اذخر کو قبروں میں بھی ڈالتے اور چھت بھی اس سے پاٹتے وہ ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔ عبدالوہاب کی روایت کو خو دامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الحج میں نکالا ہے۔ روایت میں سناروں کا ذکر ہے، اسی سے اس پیشہ کا درست ہونا ثابت ہوا۔ سنار جو سونا چاندی وغیرہ سے عورتوں کے زیور بنانے کا دھندا کرتے ہیں۔