You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا الضحاك بن مخلد، حدثنا ابن جريج، قال أخبرني عمرو بن دينار، أن أبا صالح الزيات، أخبره أنه، سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول الدينار بالدينار، والدرهم بالدرهم. فقلت له: فإن ابن عباس لا يقوله، فقال أبو سعيد: سألته، فقلت: سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم، أو وجدته في كتاب الله؟. قال: كل ذلك لا أقول، وأنتم أعلم برسول الله صلى الله عليه وسلم مني، ولكنني أخبرني أسامة: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (لا ربا إلا في النسيئة).
Narrated Abu Salih Az-Zaiyat: I heard Abu Sa`id Al-Khudri saying, The selling of a Dinar for a Dinar, and a Dirham for a Dirham (is permissible). I said to him, Ibn `Abbas does not say the same. Abu Sa`id replied, I asked Ibn `Abbas whether he had heard it from the Prophet s or seen it in the Holy Book. Ibn `Abbas replied, I do not claim that, and you know Allah's Apostle better than I, but Usama informed me that the Prophet had said, 'There is no Riba (in money exchange) except when it is not done from hand to hand (i.e. when there is delay in payment).'
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، انہیں ابوصالح زیات نے خبر دی، اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ دینار، دینار کے بدلے میں اور درہم درہم کے بدلے میں ( بیچا جاسکتا ہے ) اس پر میں نے ان سے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق پوچھا کہ آپ نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا یا کتاب اللہ میں آپ نے اسے پایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان میں سے کسی بات کامیں دعویدار نہیں ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی احادیث ) کو آپ لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ البتہ مجھے اسامہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مذکورہ صورتوں میں ) سود صرف ادھار کی صورت میں ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب یہ ہے کہ بیاج اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک طرف ادھار ہو۔ اگر نقد ایک درہم دو درہم کے بدلے میں بیچے تو یہ درست ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دلیل یہ حدیث ہے لا ربوا الا فی النسیئۃ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس فتوی پر جب اعتراضات ہوئے تو انہوں نے کہا میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ کی کتاب میں میں نے یہ مسئلہ پایا ہے، نہ یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ کیو نکہ میں اس زمانہ میں بچہ تھا اور تم جوان تھے۔ رات دن آپ کی صحبت بابرکت میں رہا کرتے تھے۔ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فتوے کے خلاف اب اجماع ہو گیا ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ محمول ہے اس پر جب جنس مختلف ہوں۔ جیسے ایک طرف چاندی دوسری طرف سونا، یا ایک طرف گیہوں اور دوسری طرف جوار ہو ایسی حالت میں کمی بیشی درست ہے۔ بعض نے کہ حدیث لا ربوا الا فی النسیئۃ منسوخ ہے مگر صرف احتمال سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔ صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نہیں ہے بیاج اس بیع میں جو ہاتھوں ہاتھ ہو۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس قول سے رجوع کر لیا تھا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں : و قد روی الحازمی رجوع ابن عباس و استغفارہ عندما سمع عمر بن الخطاب و ابنہ عبداللہ یحدثان عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بما یدل علی تحریم ربواالفضل و قال حفظتما من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما لم احفظ و روی عنہ الحازمی ایضاً انہ قال کان ذلک برای و ہذا ابوسعید الخدری یحدثنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فترکت رائی الی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ یعنی حازمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اس سے رجوع اور استغفار نقل کیا ہے جب انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے سے اس بیع کی حرمت میں فرمان رسالت سنا تو افسوس کے طور پر کہا کہ آپ لوگوں نے فرمان رسالت یاد رکھا، لیکن افسوس کہ میں یاد نہ رکھ سکا۔ اور بروایت حازمی انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے جو کہا تھا وہ صرف میری رائے تھے، اور میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث نبوی سن کر اپنی رائے کو چھوڑ دیا۔ دیانتداری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ سامنے آجائیں تو کسی بھی رائے اور قیاس کو حجت نہ گردانا جائے اور کتاب و سنت کو مقدم رکھا جائے حتی کہ جلیل القدر ائمہ دین کی آراءبھی نصوص صریحہ کے خلاف نظر آئیں تو نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ آراءکے مقابلہ میں کتاب و سنت کو جگہ دی جائے۔ ائمہ اسلام حضرت امام ابوحنیفہ و اما م شافعی و امام مالک وامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ اجمعین سب کا یہی ارشاد ہے کہ ہمارے فتاوے کو کتاب و سنت پر پیش کرو، موافق ہوں توقبول کرو۔ اگر خلاف نظر آئیں تو کتاب و سنت کو مقدم رکھو۔ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جلیل القدر کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں ایسے ارشادات ائمہ کو کئی جگہ نقل فرمایا مگر صد افسوس کہ امت کا کثیر طبقہ وہ ہے جو اپنے اپنے حلقہ ارادت میں جمود کا سختی سے شکار ہے اور وہ اپنے اپنے مزعومہ مسلک کے خلاف قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی بھی صاف صریح حدیث نبوی کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ حضرت حالی مرحوم نے ایسے ہی لوگوںکے حق میں فرمایا ہے : سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے فتاووں پہ بالکل مدار عمل ہے ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے نہ ایمان باقی نہ اسلام باقی فقط رہ گیا نام اسلام باقی