You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ سَمِعْتُ مَالِكًا وَسَأَلَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الرَّبِيعِ أَحَدَّثَكَ دَاوُدُ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَوْ دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ قَالَ نَعَمْ
Narrated Abu Huraira: The Prophet allowed the sale of the dates of 'Araya provided they were about five Awsuq (singular: Wasaq which means sixty Sa's) or less (in amount).
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام مالک سے سنا، ان سے عبید اللہ بن ربیع نے پوچھا کہ کیا آپ سے داؤد نے سفیان سے او رانہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ و سق یا اس سے کم میں بیع عریہ کی اجازت دے دی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں !
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ ایک صاع پونے چھ رطل کا۔ جیسا کہ اوپر گزراہے اکثر خیرات اس کے اندر کی جاتی ہے تو آپ نے یہ حد مقرر فرما دی۔ ابوحنفیہ کا یہ کہنا کہ عرایا کی حدیث منسوخ ہے یا معارض ہے مزابنہ کی حدیث کے، صحیح نہیں۔ کیوںکہ نسخ کے لیے تقدیم تاخیر ثابت کرنا ضروری ہے اور معارضہ جب ہوتا کہ مزابنہ کی نہی کے ساتھ عرایا کا استثناءنہ کیا جاتا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرماتے وقت عرایا کو مستثنی کردیا تو اب تعارض کہاں رہا۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : قال ابن المنذر ادعی الکوفیون ان بیع العرایا منسوخ بنہیہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الثمر بالثمر و ہذا مردود لان الذی روی النہی عن بیع التمر بالتمر ہو الذی روی الرخصۃ فی العرایا فاثبت النہی و الرخصۃ معا قلت و روایۃ سالم الماضیۃ فی الباب الذی قبلہ تدل علی ان الرخصۃ فی بیع العرایا وقع بعد النہی عن بیع التمر بالتمر و لفظہ عن ابن عمر مرفوعاً و لا تبیعوا التمر بالتمر قال و عن زید بن ثابت انہ صلی اللہ علیہ وسلم رخص بعد ذلک فی بیع العریۃ و ہذا ہو الذی بقتضیہ لفظ الرخصۃ فانہا تکون بعد منع و کذلک بقیۃ الاحادیث التی وقع فیہا استثناءالعرایا بعد ذکر بیع الثمر بالتمر و قد قدمت ایضاح ذلک ( الفتح الباری ) یعنی بقول ابن منذر اہل کوفہ کا یہ دعویٰ کہ بیع عرایا کی اجازت منسوخ ہے اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر کی کھجوروں کو سوکھی کھجوروں کے بدلے میں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ اور اہل کوفہ کا یہ دعویٰ مردو د ہے اس لیے کہ نہی کی روایت کرنے والے روای ہی نے بیع عرایا کی رخصت بھی روایت کی ہے۔ پس انہوں نے نہی اور رخصت ہر دو کو اپنی اپنی جگہ ثابت رکھا ہے اور میں کہتا ہوں کہ سالم کی روایت جو بیع عرایا کی رخصت میں مذکور ہو چکی ہے، وہ بیع الثمر بالتمر کی نہی کے بعد کی ہے اور ان کے لفظ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً یہ ہے کہ نہ بیچو ( درخت پر کی ) کھجور کو خشک کھجور سے۔ کہا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد بیع عرایا کی رخصت دے دی، اور یہ رخصت ممانعت کے بعد کی ہے اور اسی طرح بقایا احادیث ہیں جن میں بیع الثمر بالتمر کے بعد بیع عرایا کی رخصت کا مستثنی ہونا مذکور ہے اور میں ( ابن حجر ) واضح طور پر پہلے بھی اسے بیان کر چکا ہوں۔