You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا أَنْ تُبَاعَ بِخَرْصِهَا كَيْلًا قَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ وَالْعَرَايَا نَخَلَاتٌ مَعْلُومَاتٌ تَأْتِيهَا فَتَشْتَرِيهَا
Narrated Ibn `Umar from Zaid bin Thabit: Allah's Apostle allowed the sale of 'Araya by estimating the dates on them for measured amounts of dried dates. Musa bin `Uqba said, Al- 'Araya were distinguished date palms; one could come and buy them (i.e. their fruits).
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا کہ ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، انہیں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی اجازت دی کہ وہ اندازے سے بیچی جاسکتی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ عرایا کچھ معین درخت جن کا میوہ تو اترے ہوئے میوے کے بدل خریدے۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ عرایا کی تفصیل ان لفظوں میں پیش فرماتے ہیں جمع عریۃ قال فی الفتح و ہی فی الاصل عطیۃ ثمر النخل دون الرقبۃ کانت العرب فی الجدب تتطوع بذلک علی من لا ثمر لہ کما یتطوع صاحب الشاۃ او الابل بالمنیحۃ وہی عطیۃ اللبن دون الرقبۃ ( نیل ) یعنی عرایا عریہ کی جمع ہے اور دراصل یہ کھجور کا صرف پھل کسی محتاج مسکین کو عاریتاً بخشش کے طور پر دے دینا ہے۔ عربوں کا طریقہ تھا کہ وہ فقراءمساکین کو فصل میں کسی درخت کا پھل بطور بخشش دے دیا کرتے تھے جیسا کہ بکری اوراونٹ والوں کابھی طریقہ رہا ہے کہ کسی غریب مسکین کے حوالہ صرف دودھ پینے کے لیے بکری یا اونٹ کردیا کرتے تھے۔ آگے حضرت علامہ فرماتے ہیں و اخرج الامام احمد عن سفیان بن حسین ان العرایا نخل توہب للمساکین فلا یستطیعون ان ینتظروا بہا فرخص لہم ان یبیعوہا بما شاءو امن التمر یعنی عرایا ان کھجوروں کو کہا جاتا ہے جو مساکین کو عاریتاً بخشش کے طور پر دے دی جاتی ہیں۔ پھر ان مساکین کو تنگ دستی کی وجہ سے ان کھجوروں کا پھل پختہ ہونے کا انتظار کرنے کی تاب نہیں ہوتی۔ پس ان کو رخصت دی گئی کہ وہ جیسے مناسب جانیں سوکھی کھجوروں سے ان کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ و قال الجوہری ہی النخلۃ التی یعریہا صحابہا رجلا محتاجا بان یعجل لہ ثمرہا عاماً یعنی جوہری نے کہا کہ یہ وہ کھجور ہیں جس کے پھلوں کو ان کے مالک کسی محتاج کو عاریتاً محض بطور بخشش سال بھر کے لیے دے دیا کرتے ہیں۔ عرایا کی اور بھی بہت سی صورتیں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ ضروری ہے۔ علامہ شوکانی آخر میں فرماتے ہیں و الحاصل ان کل صورۃ من صور العرایا ورد بہا حدیث صحیح او ثبت عن اہل الشرع او اہل اللغۃ فہی جائزۃ لدخولہا تحت مطلق الاذن و التخصیص فی بعض الاحادیث علی بعض الصور لا ینافی ما ثبت فی غیرہ یعنی بیع عرایا کی جتنی بھی صورتیں صحیح حدیث میں وارد ہیں یا اہل شرع یا اہل لغت سے وہ ثابت ہیں وہ سب جائز ہیں۔ اس لیے کہ وہ مطلق اذن کے تحت داخل ہیں۔ اور بعض احادیث بعض صورتوں میں جو بطور نص وارد ہیں وہ ان کے منافی نہیں ہیں جو بعض ان کے غیر سے ثابت ہیں۔ بیع عرایا کے جواز میں اہم پہلو غرباءمساکین کا مفاد ہے جو اپنی تنگ دستی کی وجہ سے پھلوں کے پختہ ہونے کا انتظار کرنے سے معذور ہیں۔ ان کو فی الحال شکم پری کی ضرورت ہے اس لیے ان کو اس بیع کے لیے اجازت دی گئی۔ ثابت ہوا کہ عقل صحیح بھی اس کے جواز کی تائید کرتی ہے۔ سند میں مذکور بزرگ حضرت نافع سرجس کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ ہیں۔ یہ دیلمی تھے اور اکابرتابعین میں سے ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوسعید رضی اللہ عنہ سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان سے بہت لوگوں نے جن میں زہری اور امام مالک بھی ہیں، روایت کی ہے۔ حدیث کے بارے میں شہرت یافتہ لوگوں میں سے ہیں۔ نیز ان ثقہ راویوں میں سے ہیں جن کی روایت پر مکمل اعتماد ہوتا ہے اور جن کی روایت کردہ احادیث پر عمل کیا جاتاہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیثوں کا بڑا حصہ ان ہی پر موقوف ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں نافع کے واسطہ سے حدیث سن لیتا ہوں تو پھر کسی اور راوی سے سننے کی لیے بے فکر ہو جاتا ہوں۔ 117ھ میں وفات پائی۔ رحمہ اللہ