You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَرَجَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ فَأَصَابَهُمْ الْمَطَرُ فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي جَبَلٍ فَانْحَطَّتْ عَلَيْهِمْ صَخْرَةٌ قَالَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ادْعُوا اللَّهَ بِأَفْضَلِ عَمَلٍ عَمِلْتُمُوهُ فَقَالَ أَحَدُهُمْ اللَّهُمَّ إِنِّي كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَرْعَى ثُمَّ أَجِيءُ فَأَحْلُبُ فَأَجِيءُ بِالْحِلَابِ فَآتِي بِهِ أَبَوَيَّ فَيَشْرَبَانِ ثُمَّ أَسْقِي الصِّبْيَةَ وَأَهْلِي وَامْرَأَتِي فَاحْتَبَسْتُ لَيْلَةً فَجِئْتُ فَإِذَا هُمَا نَائِمَانِ قَالَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ رِجْلَيَّ فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمَا حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ قَالَ فَفُرِجَ عَنْهُمْ وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ أُحِبُّ امْرَأَةً مِنْ بَنَاتِ عَمِّي كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرَّجُلُ النِّسَاءَ فَقَالَتْ لَا تَنَالُ ذَلِكَ مِنْهَا حَتَّى تُعْطِيَهَا مِائَةَ دِينَارٍ فَسَعَيْتُ فِيهَا حَتَّى جَمَعْتُهَا فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ فَقُمْتُ وَتَرَكْتُهَا فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً قَالَ فَفَرَجَ عَنْهُمْ الثُّلُثَيْنِ وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقٍ مِنْ ذُرَةٍ فَأَعْطَيْتُهُ وَأَبَى ذَاكَ أَنْ يَأْخُذَ فَعَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ حَتَّى اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيهَا ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَعْطِنِي حَقِّي فَقُلْتُ انْطَلِقْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ وَرَاعِيهَا فَإِنَّهَا لَكَ فَقَالَ أَتَسْتَهْزِئُ بِي قَالَ فَقُلْتُ مَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ وَلَكِنَّهَا لَكَ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فَكُشِفَ عَنْهُمْ
Narrated Ibn `Umar: The Prophet said, While three persons were walking, rain began to fall and they had to enter a cave in a mountain. A big rock rolled over and blocked the mouth of the cave. They said to each other, 'Invoke Allah with the best deed you have performed (so Allah might remove the rock)'. One of them said, 'O Allah! My parents were old and I used to go out for grazing (my animals). On my return I would milk (the animals) and take the milk in a vessel to my parents to drink. After they had drunk from it, I would give it to my children, family and wife. One day I was delayed and on my return I found my parents sleeping, and I disliked to wake them up. The children were crying at my feet (because of hunger). That state of affairs continued till it was dawn. O Allah! If You regard that I did it for Your sake, then please remove this rock so that we may see the sky.' So, the rock was moved a bit. The second said, 'O Allah! You know that I was in love with a cousin of mine, like the deepest love a man may have for a woman, and she told me that I would not get my desire fulfilled unless I paid her one-hundred Dinars (gold pieces). So, I struggled for it till I gathered the desired amount, and when I sat in between her legs, she told me to be afraid of Allah, and asked me not to deflower her except rightfully (by marriage). So, I got up and left her. O Allah! If You regard that I did if for Your sake, kindly remove this rock.' So, two-thirds of the rock was removed. Then the third man said, 'O Allah! No doubt You know that once I employed a worker for one Faraq (three Sa's) of millet, and when I wanted to pay him, he refused to take it, so I sowed it and from its yield I bought cows and a shepherd. After a time that man came and demanded his money. I said to him: Go to those cows and the shepherd and take them for they are for you. He asked me whether I was joking with him. I told him that I was not joking with him, and all that belonged to him. O Allah! If You regard that I did it sincerely for Your sake, then please remove the rock.' So, the rock was removed completely from the mouth of the cave.
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جاکر پنا ہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی ( اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لئے ہوئے تھے ) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو، نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی ” اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لئے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنادے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ دوسرے شخص نے دعا کی ” اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے اپنے چچا کی ایک لڑکی سے اتنی زیادہ محبت تھی جتنی ایک مرد کو کسی عورت سے ہو سکتی ہے۔ اس لڑکی نے کہا تم مجھ سے اپنی خواہش اس وقت تک پوری نہیں کرسکتے جب تک مجھے سو اشرفی نہ دے دو۔ میں نے ان کے حاصل کرنے کی کوشش کی، اور آخر اتنی اشرفی جمع کرلی۔ پھر جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھا۔ تو وہ بولی، اللہ سے ڈر، اور مہر کو ناجائز طریقے پر نہ توڑ۔ اس پر میں کھڑا ہو گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اب اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ عمل تیری ہی رضا کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے ( نکلنے کا ) راستہ بنادے “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا۔ تیسرے شخص نے دعا کی ” اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور سے ایک فرق جوار پر کام کرایا تھا۔ جب میں نے اس کی مزدوری اسے دے دی تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے اس جوار کو لے کر بو دیا ( کھیتی جب کٹی تو اس میں اتنی جورا پیدا ہوئی کہ ) اس سے میں نے ایک بیل اور ایک چرواہا خرید لیا۔ کچھ عرصہ بعد پھر اس نے آکر مزدوری مانگی کہ خدا کے بندے مجھے میرا حق دے دے۔ میں نے کہا کہ اس بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جاؤ کہ یہ تمہارے ہی ملک ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھ سے مذاق کرتے ہو۔ میں نے کہا ” میں مذاق نہیں کرتا “ واقعی یہ تمہارے ہی ہیں۔ تو اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو یہاں ہمارے لیے ( اس چٹان کو ہٹا کر ) راستہ بنا دے۔ چنانچہ وہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آگئے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ا س باب میں جو یہ حدیث لائے۔ اس سے مقصود اخیر شخص کا بیان ہے کیوں کہ بغیر مالک سے پوچھے اس جوار کو دوسرے کام میں صرف کیا اور اس سے نفع کمایا، اور بیع کو بھی اس پر قیاس کیا۔ تو بیع فضولی نکاح فضولی کی طرح صحیح ہے اور مالک کی اجازت پر نافذ ہوجاتی ہے۔ اس حدیث طویل سے اعمال صالحہ کو بطور وسیلہ اللہ کے سامنے پیش کرنا بھی ثابت ہوا کہ اصل وسیلہ ایسے ہی اعمال صالحہ کا ہے اور آیت کریمہ و ابتغوا الیہ الوسیلۃ کا یہی مفہوم ہے۔ جو لوگ قبروں، مزاروں اور مردہ بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ اور ایسے وسائل بعض دفعہ شرکیات کی حد میں داخل ہوجاتے ہیں۔ حدیث میں چرواہے کا واقعہ ہے جس سے بچوں پر ظلم کا شبہ ہوتا ہے کہ وہ رات بھر بھوکے بلبلاتے رہے۔ مگر یہ ظلم نہیں ہے۔ یہ ان کی نیک نیتی تھی کہ وہ پہلے والدین کو پلانا چاہتے تھے اور آیت کریمہ و یوثرون علی انفسہم و لوکان بہم خصاصۃ ( الحشر : 9 ) کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے جو یہاں مذکور ہے۔ وہنا طریق اخر فی الجواز و وہو انہ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر ہذہ القصۃ فی معرض المدح و الثناءعلی فاعلہا و اقرہ علی ذلک و لو کان لا یجوز لبینہ یعنی باب کے مضمون مذکورہ کا جواز یوں بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قصہ کو اور اس میں اس مزدور کے متعلق امر واقعہ کو بطور مدح و ثنا ذکر فرمایا۔ اسی سے مضمون باب ثابت ہوا کہ اگر یہ فعل ناجائز ہوتا تو آپ اسے بیان فرما دیتے۔