You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي الدِّيلِ هَادِيًا خِرِّيتًا وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ بِرَاحِلَتَيْهِمَا صُبْحَ ثَلَاثٍ
Narrated Aisha: (the wife of the Prophet) Allah's Apostle and Abu Bakr hired a man from the tribe of Bani-Ad-Dil as an expert guide who was a pagan (follower of the religion of the pagans of Quraish). The Prophet and Abu Bakr gave him their two riding camels and took a promise from him to bring their riding camels in the morning of the third day to the Cave of Thaur.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنو دیل کے ایک ماہر راہبر سے مزدوری طے کر لی تھی۔ وہ شخص کفار قریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں حضرات نے اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دی تھیں اور کہہ دیا تھا کہ تین راتوں کے بعد صبح سویرے ہی سواروں کے ساتھ غار ثور پر آجائے۔
اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے متعلق ایک جزوی ذکر ہے کہ آپ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شب ہجرت میں سفر شروع کرنے سے پہلے ایک ایسے شخص کو بطور راہبر مزدور مقرر فرما لیا تھا جو کفار قریش کے دین پر تھا اور یہ بنودیل میں سے تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اس پر اعتماد تھا اس لیے اپنی ہر دو سواریوں کو اس کے حوالہ کرتے ہوئے اس سے وعدہ لے لیا کہ وہ تین راتیں گزر جانے کے بعد دونوں سواریوں کو لے کر غار ثور پر چلا آئے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ اور آپ ہر دو نے سفر شروع کیا۔ یہ شخص بطور ایک ماہر راہبر کے تھا اور عامر بن فہیرہ کو ہر دو سواریوں کے لیے نگران کے طور پر مقرر کیا تھا۔ اگلے باب میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو اس شرط پر مزدور مقرر کیا کہ وہ اپنا مقرر کام تین راتیں گزرنے کے بعد انجام دے۔ اسی طرح اگر ایک ماہ بعد یا سال بعد کی شرط پر کسی کو مزدور رکھا جائے اور ہر دو فریق راضی ہوں تو ایسا معاملہ کرنا درست ہے۔ اس حدیث سے بھی ضرورت کے وقت کسی معتمد غیر مسلم کو بطور مزدور رکھ لینا جائز ثابت ہوا۔ و ہذا ہو المراد الحمد للہ کہ کعبہ شریف میں غار ثور کی طرف بیٹھے ہوئے یہ حدیث اور اس کی یہ تشریح حوالہ قلم کر رہا ہوں، چودہ سو سال گزررہے ہیں مگر حیات طیبہ کا ایک ایک ورق ہر طرح سے اتنامحفوظ ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ یہی وہ غار ثور ہے جس کو آج جبل الثور کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین راتوں تک قیام فرمایا تھا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس باب کے ذیل میں حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کا تشریحی نوٹ یہ ہے کہ اس باب کے لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اجارہ میں یہ امر ضروری نہیں کہ جس وقت سے اجارہ شروع ہو اسی وقت سے کام شروع کرے۔ اسماعیلی نے اعتراض کیا ہے کہ باب کی حدیث سے یہ نہیں نکلتا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ تین دن کے بعد اپنا کام شروع کرے، مگر یہ اعتراض صحیح نہیں کیوں کہ حدیث مذکورہ میں باب کی مطابقت واضح طور پر موجود ہے۔ بہ ثبوت اجارہ صاحب المہذب لکھتے ہیں : فقد ثبت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابابکر استاجر عبداللہ بن الاریقط الدیلی و کان حزینا و ہواخبر بمسالک الصحراءو الوہاد العالم بجغرافیۃ بلاد العرب علی الطبیعۃ لیکون ہادیا و مرشدا لہما فی ہجرتہما من مکۃ الی المدینۃتحقیق ثابت ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن اریقط دیلی کو مزدور بنایا۔ وہ صحرائی راستے کا بہت بڑا ماہر تھا۔ و ہ بلاد عرب کے طبعی جغرافیہ سے پورے طور پر واقف تھا۔ اس کو اس لیے مزدور رکھا تھا تاکہ وہ بوقت ہجرت مکہ سے مدینہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ا بوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے رہنمائی کا فر ض انجام دے۔ جس سے غیر مسلم کو جس پر اعتماد ہو مزدور بنا کر رکھنا ثابت ہوا۔ آج 29ذی الحجہ1389ھ کو بوقت مغرب مقام ابراہیم کے پاس بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔ والحمد للہ علی ذلک اور2صفر یوم جمعہ کو مسجد نبوی جنت کی کیاری میں بیٹھ کر اس پر نظر ثانی کی گی۔ والحمد للہ علی ذلک۔ غار ثور پر حاضری : اس حدیث کو لکھتے ہوئے دل میں خیال آیا تھا کہ مکۃ المکرمہ میں موجود ہونے پر مناسب ہوگا کہ ہجرت نبوی کی اولین منزل یعنی غار ثور کو خو داپنی آنکھوں سے دیکھ کر عبرت حاصل کی جائے۔ اگرچہ یہاں جانا نہ کوئی رکن حج ہے نہ اس کے لیے کوئی شرعی حکم ہے مگر سیروا فی الارض کے تحت بتاریخ 16محرم 1390ھ دیگر رفقاءحجاج کرام کے ہمراہ غار ثور پر جانے کا عزم کرلیا۔ حرم شریف سے کئی میل کا فاصلہ ہے اور وہاں جانے پر چاروں طرف پہاڑوں کی خوفناک مناظر سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان ٹائم کے مطابق اندازا دن کے گیارہ بجے ہمارا قافلہ دامن کوہ ثور میں پہنچ گیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر نظر ڈالی گئی تو ہمت نے جواب دے دیا۔ مگر رفقاءکرام کے عزم کو دیکھ کر چڑھائی شروع کی گئی۔ حال یہ تھا کہ جس قدر اوپر چڑھتے جاتے وہ مقام دور ہی نظر آتا جا رہا تھا۔ آخر بیٹھ بیٹھ کر بصد مشکل تقریباً گھنٹہ بھر کی محنت کے بعد غار ثور تک رسائی ہو سکی۔ یہاں اس قسم کے کئی غار ہیں جن کے اوپر عظیم پتھروں کی چھت قدرتی طور پر بنی ہوئی ہیں۔ ایک غار پر غار ثور لکھا ہوا تھا یہی وہ غار ثور ہے جس کے اندر بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار غار حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا ما ظنک باثنین اللہ ثالثہما جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دشمنوں کا خوف محسوس ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مذکورہ بالا لفظوں میں تسلی دلائی تھی کہ اے ابوبکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا خود اللہ پاک ہے۔ ( اللہ پاک کے خود ساتھ ہونے سے اس کی مدد و نصرت مراد ہے، جب کہ وہ خو داپنی ذات سے عرش عظیم پر ہے ) مطلب یہ تھا کہ خود اللہ ہمارا محافظ و ناصر ہے۔ پھر ہم کو دشمنوں کی طرف سے کیا غم ہو سکتا ہے اور اللہ پاک نے اپنے ہر دو محبوب بندوں کو بچا لیا۔ غار کے اندر دو آدمیوں کے بیٹھنے لیٹے کی جگہ ہے ایک طرف سے بیٹھ کر داخل ہو ا جاسکتا ہے میں اور ہمارے رفیق اندر داخل ہوئے اور سارا منظر دیکھا۔ اور بار بار قدرت الٰہی یاد آتی رہی۔ اور تاریخ اسلام کے عظیم واقعہ کی یاد تازہ ہوتی رہی۔ چند الفاظ یاد داشت غار کے اندر ہی بیٹھ کر حوالہ قلم کئے گئے۔ جی چاہتا ہے کہ یہا ںکافی دیر ٹھہرا جائے کیوں کہ منظر بہت ہی روح افزا تھا۔ مگر نیچے گاڑی والا منتظر تھا۔ اس لیے دوستوں کے ساتھ واپسی کا مرحلہ طے کیا گیا۔ غار اونچائی اور راستہ پر خطر ہونے کے لحاظ سے اس قابل نہیں ہے کہ ہر شخص وہاں تک جاسکے۔ چڑھنا بھی خطرناک اور اترنا اس سے زیادہ خطرناک ہے، چنانچہ اترنے میں دو گنا وقت صرف ہوا اور نماز ظہر کا وقت بھی اترتے اترتے ہی ہوگیا۔ بصد مشکل نیچے اتر کر گاڑی پکڑی اور حرم شریف میں ایسے وقت حاضری ہوئی کہ ظہر کی نماز ہو چکی تھی مگر الحمد للہ کہ زندگی کی ایک حسرت تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی اولین منزل کو دیکھا جائے سو اللہ پاک نے یہ موقع نصیب فرمایا۔ و الحمد للہ اولا و آخراوالصلوۃ و السلام علی رسول اللہ و علی صاحبہ الصدیق رضی اللہ عنہ۔ ( محترم حاجی اللہ بخش صاحب بیجا پوری اور محترم حاجی منشی حقیق اللہ صاحب ناظر مدرسہ دار الہدی یوسف پور، یوپی ساتھ تھے جن کی ہمت سے مجھ جیسے ضعیف کمزور نے بھی اس منزل تک رسائی حاصل کی۔ جزاہم اللہ )