You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال وزعم عروة أن مروان بن الحكم، والمسور بن مخرمة، أخبراه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن مسلمين، فسألوه أن يرد إليهم أموالهم وسبيهم فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم "أحب الحديث إلى أصدقه. فاختاروا إحدى الطائفتين إما السبى، وإما المال، وقد كنت استأنيت بهم". وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم انتظرهم بضع عشرة ليلة، حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين قالوا فإنا نختار سبينا. فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسلمين، فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال "أما بعد فإن إخوانكم هؤلاء قد جاءونا تائبين، وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم، فمن أحب منكم أن يطيب بذلك فليفعل، ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل". فقال الناس قد طيبنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "إنا لا ندري من أذن منكم في ذلك ممن لم يأذن، فارجعوا حتى يرفعوا إلينا عرفاؤكم أمركم". فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبروه أنهم قد طيبوا وأذنوا.
Narrated Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama: When the delegates of the tribe of Hawazin after embracing Islam, came to Allah's Apostle, he got up. They appealed to him to return their properties and their captives. Allah's Apostle said to them, The most beloved statement to me is the true one. So, you have the option of restoring your properties or your captives, for I have delayed distributing them. The narrator added, Allah's Apostle c had been waiting for them for more than ten days on his return from Taif. When they realized that Allah's Apostle would return to them only one of two things, they said, We choose our captives. So, Allah's Apostle got up in the gathering of the Muslims, praised Allah as He deserved, and said, Then after! These brethren of yours have come to you with repentance and I see it proper to return their captives to them. So, whoever amongst you likes to do that as a favor, then he can do it, and whoever of you wants to stick to his share till we pay him from the very first booty which Allah will give us then he can do so. The people replied, We agree to give up our shares willingly as a favor for Allah's Apostle. Then Allah's Apostle said, We don't know who amongst you has agreed and who hasn't. Go back and your chiefs may tell us your opinion. So, all of them returned and their chiefs discussed the matter with them and then they (i.e. their chiefs) came to Allah's Apostle to tell him that they (i.e. the people) had given up their shares gladly and willingly.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ عروہ یقین کے ساتھ بیان کرتے تھے اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( غزوہ¿ حنین کے بعد ) جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا ( جعرانہ میں ) تقریباً دس رات تک انتظا رکیا۔ پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کرسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا، اما بعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو ( قیمت کی شکل میں ) اس وقت واپس کردیں جب اللہ تعالیٰ ( آج کے بعد ) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بولے پڑے کہ ہم بخوشی رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کرسکتے کہ تم میں سے کسی نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب ( اپنے اپنے ڈیروں میں ) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے ( جو ان کے نمائندے تھے ) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔