You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فَشَرِبَ مِنْهُ وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ أَصْغَرُ الْقَوْمِ وَالْأَشْيَاخُ عَنْ يَسَارِهِ فَقَالَ يَا غُلَامُ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَهُ الْأَشْيَاخَ قَالَ مَا كُنْتُ لِأُوثِرَ بِفَضْلِي مِنْكَ أَحَدًا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ
Narrated Sahl bin Sa`d: A tumbler (full of milk or water) was brought to the Prophet who drank from it, while on his right side there was sitting a boy who was the youngest of those who were present and on his left side there were old men. The Prophet asked, O boy, will you allow me to give it (i.e. the rest of the drink) to the old men? The boy said, O Allah's Apostle! I will not give preference to anyone over me to drink the rest of it from which you have drunk. So, the Prophet gave it to him.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ اور پانی کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیا۔ آپ کی دائیں طرف ایک نوعمر لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا لڑکے ! کیا تو اجازت دے گا کہ میں پہلے یہ پیالہ بڑوں کو دے دوں۔ اس پر اس نے کہا، یا رسول اللہ ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ نے وہ پیالہ پہلے اسی کو دے دیا۔
یہ نوعمر لڑکے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تھے اور اتفاق سے یہ اس وقت مجلس میں دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے ۔ دیگر شیوخ اور بزرگ صحابہ بائیں جانب تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب باقی ماندہ مشروب کو تقسیم فرمانا چاہا تویہ تقسیم دائیں طرف سے شروع ہونی تھی ۔ اور اس کا حق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو پہنچتا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں جانب والے بزرگوں کا خیال فرما کر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اجازت چاہی لیکن وہ اس لیے تیار نہ ہوئے کہ اس طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بچایا ہوا پانی کہاں اور کب نصیب ہونا تھا ۔ اس لیے انہوں نے اس ایثار سے صاف انکار کر دیا ۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ پانی کی تقسیم ہو سکتی ہے اور اس کے حصے کی ملک جائز ہے ۔ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑکے سے اجازت کیوں طلب فرماتے ۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ تقسیم میں داہنی طرف والوں کا حصہ ہے ، پھر بائیں طرف والوں کا ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بچا ہوا پانی اس لڑکے پر ہبہ فرما دیا ۔ اس سے پانی کا ہبہ کر دینا بھی ثابت ہوا ۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حق اور ناحق کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کا بھی لحاظ نہیں کیا جاسکتا ۔ حق بہرحال حق ہے اگر وہ کسی چھوٹے آدمی کو پہنچتا ہے تو بڑوں کا فرض ہے ۔ کہ بہ رضا رغبت اسے اس کے حق میں منتقل ہونے دیں ۔ اور اپنی بڑائی کا خیال چھوڑدیں ، لیکن آج کے دور میں ایسے ایثار کرنے والے لوگ بہت کم ہیں ، ایثار اور قربانی ایمان کا تقاضا ہے اللہ ہر مسلمان کو یہ توفیق بخشے ۔ آمین ۔