You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال حدثني ابن شهاب، عن عروة، عن عبد الله بن الزبير ـ رضى الله عنهما ـ أنه حدثه أن رجلا من الأنصار خاصم الزبير عند النبي صلى الله عليه وسلم في شراج الحرة التي يسقون بها النخل فقال الأنصاري سرح الماء يمر فأبى عليه، فاختصما عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للزبير "اسق يا زبير، ثم أرسل الماء إلى جارك". فغضب الأنصاري، فقال أن كان ابن عمتك. فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال "اسق يا زبير، ثم احبس الماء، حتى يرجع إلى الجدر". فقال الزبير والله إني لأحسب هذه الآية نزلت في ذلك {فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم}.
Narrated `Abdullah bin Az-Zubair: An Ansari man quarreled with Az-Zubair in the presence of the Prophet about the Harra Canals which were used for irrigating the date-palms. The Ansari man said to Az-Zubair, Let the water pass' but Az-Zubair refused to do so. So, the case was brought before the Prophet who said to Az-Zubair, O Zubair! Irrigate (your land) and then let the water pass to your neighbor. On that the Ansari got angry and said to the Prophet, Is it because he (i.e. Zubair) is your aunt's son? On that the color of the face of Allah's Apostle changed (because of anger) and he said, O Zubair! Irrigate (your land) and then withhold the water till it reaches the walls between the pits round the trees. Zubair said, By Allah, I think that the following verse was revealed on this occasion : But no, by your Lord They can have No faith Until they make you judge In all disputes between them. (4.65)
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک انصاری مرد نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرہ کے نالے میں جس کا پانی مدینہ کے لوگ کھجور کے درختوں کو دیا کرتے تھے، اپنے جھگڑے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ انصاری زبیر سے کہنے لگا پانی کو آگے جانے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ کو اس سے انکار تھا۔ اور یہی جھگڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ( پہلے اپنا باغ ) سینچ لے پھر اپنے پڑوسی بھائی کے لیے جلدی جانے دے۔ اس پر انصاری کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا، ہاں زبیر آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں نا۔ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا اے زبیر ! تم سیراب کر لو، پھر پانی کو اتنی دیر تک روکے رکھو کہ وہ منڈیروں تک چڑھ جائے۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم ! میرا تو خیال ہے کہ یہ آیت اسی باب میں نازل ہوئی ہے ” ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے جھگڑوں میںتجھ کو حاکم نہ تسلیم کرلیں۔ “ آخر تک۔
یہ حدیث اور آیت کریمہ اطاعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرضیت پر ایک زبردست دلیل ہے اور اس امر پر بھی کہ جو لوگ صاف صریح واضح ارشاد نبوی سن کر اس کی تسلیم میں پس و پیش کریں وہ ایمان سے محروم ہیں۔ قرآن مجید کی اور بھی بہت سے آیات میں اس اصول کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے ما کان لمومن و لا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لہم الخیرۃ من امرہم و من یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلالا مبینا ( الاحزاب36 ) کسی بھی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ زیبا نہیں کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سن لے تو پھر اس کے لیے اس بارے میں کچھ اور اختیار باقی رہے جائے۔ اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلا ہوا گمراہ ہے۔ اب ان لوگوں کو خود فیصلہ کرنا چاہئے جو آیات قرانی و احادیث نبوی کے خلاف اپنی رائے اور قیاس کو ترجیح دیتے ہیں یا وہ اپنے اماموں، پیروں، مرشدوں کے فتاووں کو مقدم رکھتے ہیں۔ اور احادیث صحیحہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال دیتے ہیں۔ ان کو خود سوچنا چاہئے کہ ایک انصاری مسلمان صحابی نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قطعی فیصلہ کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا تو اللہ پاک نے کس غضبناک لہجہ میں اسے ڈانٹا اور اطاعت نبو ی کے لیے حکم فرمایا۔ جب ایک صحابی انصاری کے لیے یہ قانون ہے، تو اور کسی مسلمان کی کیا وقعت ہے کہ وہ کھلے لفظوں میں قرآن و حدیث کی مخالفت کرے اور پھر بھی ایمان کا ٹھیکدار بنا رہے۔ اس آیت شریفہ میں منکرین حدیث کو بھی ڈانٹا گیا ہے اور ان کو بتلایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی امور دینی میں ارشاد فرمائیں آپ کا وہ ارشاد بھی وحی الٰہی میں داخل ہے جس کا تسلیم کرنا اسی طرح واجب ہے جیسا کہ قرآن مجید کا تسلیم کرنا واجب ہے۔ جو لوگ حدیث نبوی کا انکار کرتے ہیں وہ قرآن مجید کے بھی منکر ہیں، قرآن و حدیث میں باہمی طور پر جسم اور روح کا تعلق ہے۔ اس حقیقت کا انکاری اپنی عقل و فہم سے دشمنی کا اظہار کرنے والا ہے۔