You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَلَمَةَ سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ قَالَ لَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَخَذْتُ صُرَّةً مِائَةَ دِينَارٍ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَرِّفْهَا حَوْلًا فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَقَالَ عَرِّفْهَا حَوْلًا فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ ثُمَّ أَتَيْتُهُ ثَلَاثًا فَقَالَ احْفَظْ وِعَاءَهَا وَعَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا فَاسْتَمْتَعْتُ فَلَقِيتُهُ بَعْدُ بِمَكَّةَ فَقَالَ لَا أَدْرِي ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ أَوْ حَوْلًا وَاحِدًا
Narrated Ubai bin Ka`b: I found a purse containing one hundred Diners. So I went to the Prophet (and informed him about it), he said, Make public announcement about it for one year I did so, but nobody turned up to claim it, so I again went to the Prophet who said, Make public announcement for another year. I did, but none turned up to claim it. I went to him for the third time and he said, Keep the container and the string which is used for its tying and count the money it contains and if its owner comes, give it to him; otherwise, utilize it. The sub-narrator Salama said, I met him (Suwaid, another sub-narrator) in Mecca and he said, 'I don't know whether Ubai made the announcement for three years or just one year.'
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے سلمہ نے کہ میں نے سوید بن غفلہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے سو دینار کی ایک تھیلی ( کہیں راستے میں پڑی ہوئی ) پائی۔ میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا تو آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا، لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اسے پہچان سکتا۔ ا س لیے میں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کاا علان کرتا رہ۔ میں نے پھر ( سال بھر ) اعلان کیا۔ لیکن ان کا مالک مجھے نہیں ملا۔ تیسری مرتبہ حاضر ہوا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس تھیلی کی بناوٹ، دینار کی تعداد اور تھیلی کے بندھن کو محفوظ رکھ۔ اگر اس کا مالک آجائے تو ( علامت پوچھ کے ) اسے واپس کر دینا، ورنہ اپنے خرچ میں اسے استعمال کرلے چنانچہ میں اسے اپنے اخراجات میں لایا۔ ( شعبہ نے بیان کیا کہ ) پھر میں نے سلمہ سے اس کے بعد مکہ میں ملاقات کی تو انہوں کہا کہ مجھے یاد نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حدیث میں ) تین سال تک ( اعلان کرنے کے لیے فرمایا تھا ) یا صرف ایک سال کے لیے۔
"روایت کے آخری الفاظ تین سال یا ایک سال کے متعلق حضرت علامہ قسطلانی فرماتے ہیں : ولم یقل احد بان اللقطۃ تعرف ثلاثۃ احوال والشک یوجب سقوط المشکوک فیہ و ہو الثلاثۃ فوجب العمل بالجزم و ہو روایۃ العام الواحد الخ ( قسطلانی ) یعنی کسی نے نہیں کہا کہ لقطہ کو تین سال تک پہچنوایا جائے اور شک سے مشکوک فیہ خود ہی ساقط ہو جاتا ہے۔ جو یہاں تین سال ہے پس پختہ چیز پر عمل واجب ہوا اور وہ ایک ہی سال کے لیے ہے۔ بعض اور روایتوں میں بھی تین سال کا ذکر آیا ہے۔ مگر وہ مزید احتیاط اور تورع پر مبنی ہے۔ اگر پانے والا غریب اور محتاج ہے تو مقررہ مدت تک اعلان کے بعد مالک کو نہ پانے کی صورت میں اسے وہ اپنی ضروریات پر خرچ کرسکتا ہے۔ اور اگر کسی محتاج کو بطور صدقہ دے دے تو اور بھی بہتر ہوگا۔ ا س پر سب کا اتفاق ہے کہ جب مالک مل جائے تو بہر صورت اسے وہ چیز واپس لوٹانی پڑے گی، خواہ ایک مدت تک اعلان کرتے رہنے کے بعد اسے اپنی ضروریات میں خرچ ہی کیوں نہ کرچکا ہو۔ امانت و دیانت سے متعلق اسلام کی یہ وہ پاک ہدایات ہیں جن پر بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ آج بھی ارض حرم میں ایسی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں کہ ایک چیز لقطہ ہے مگر دیکھنے والے ہاتھ تک نہیں لگاتے بلکہ وہ چیز اپنی جگہ پڑی رہتی ہے۔ خود 1389ھ کے حج میں میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے واقعات دیکھے۔ کیوں کہ اٹھانے والا سوچ رہا تھا کہ کہاں پہچنواتا پھرے گا۔ بہتر ہے کہ اس کو ہاتھ ہی نہ لگائے۔ اللہ پاک آج کے نوجوانوں کو توفیق دے کہ وہ حقائق اسلام کو سمجھ کر اسلام جیسی نعمت سے بہرہ ور ہونے کی کوشش کریں اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے راستے کو اپنائیں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ انصاری خزرجی ہیں۔ یہ کاتب وحی تھے۔ اور ان چھ خوش نصیب اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے عہد رسالت ہی میں پورا قرآن شریف حفظ کر لیا تھا، اور ان فقہائے اسلام میں سے ہیں جو آپ کے عہد مبارک میں فتوی دینے کے مجاز تھے۔ صحابہ میں قرآن شریف کے اچھے قاری کی حیثیت سے مشہور تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سید الانصار کا خطاب بخشا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سید المسلمین کے خطاب سے نوازا تھا۔ آپ کی وفات مدینہ طیبہ ہی میں 19ھ میں واقع ہوئی۔ آپ سے کثیر مخلوق نے روایات نقل کی ہیں۔ "