You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ القَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لاَ أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ، وَحَدَّثَنِي ابْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الحَمِيدِ، عَنِ المُغِيرَةِ، عَنِ الحَارِثِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: مَا زِلْتُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مُنْذُ ثَلاَثٍ، سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِيهِمْ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي، عَلَى الدَّجَّالِ»، قَالَ: وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا»، وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَ: «أَعْتِقِيهَا فَإِنَّهَا [ص:149] مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ»
Narrated Abu Huraira: I have loved the people of the tribe of Bani Tamim ever since I heard, three things, Allah's Apostle said about them. I heard him saying, These people (of the tribe of Bani Tamim) would stand firm against Ad-Dajjal. When the Sadaqat (gifts of charity) from that tribe came, Allah's Apostle said, These are the Sadaqat (i.e. charitable gifts) of our folk. `Aisha had a slave-girl from that tribe, and the Prophet said to `Aisha, Manumit her as she is a descendant of Ishmael (the Prophet).
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بنوتمیم سے ہمیشہ محبت کرتا رہا ہوں ( دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ) مجھ سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں حارث نے، انہیں ابوزرعہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، ( تیسری سند ) اور مغیرہ نے عمارہ سے روایت کی، انہوں نے ابوزرعہ سے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تین باتوں کی وجہ سے ج نہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔ انہوںنے بیان کیا کہ ( ایک مرتبہ ) بنوتمیم کے یہاں سے زکوٰۃ ( وصول ہوکر آئی ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنوتمیم کی ایک عورت قید ہوکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے آزاد کردے کہ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔
حدیث ہذا میں ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی عورت کے آزاد کرنے کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا اور ساتھ ہی ارشاد ہوا کہ یہ عورت حضرت اسماعیل علیہ السلام کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا معزز ترین خاندانی عورت ہے اسے آزاد کردو۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوا کہ عربوں کو بھی غلام لونڈی بنایا جاسکتا ہے۔ اس عورت کا تعلق بنوتمیم سے تھا اور بنو تمیم کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرف عطا فرمایا کہ ان کو اپنی قوم قرار دیا، کیوں کہ یہ ایک عظیم عرب قبیلہ تھا جو تمیم بن مرہ کی طرف منسوب تھا۔ جس کا نسب نامہ یوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ تمیم بن مرہ بن ادبن طانحہ بن الیاس بن مضر۔ یہاں پہنچ کر یہ نسب نامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ اس قبیلہ نے بعد میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں دجال کے مقابلہ پر یہ قبیلہ بہت سخت ہوگا جو لڑائی میں سختی کے ساتھ دجال کا مقابلہ کرے گا۔ ایک مرتبہ بنو تمیم کی زکوٰۃ وصول ہوکر دربار رسالت میں پہنچی تو آپ نے ازراہ کرم فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت کفر بھی اس خاندان کی اس قدر عزت افزائی فرمائی کہ اس سے تعلق رکھنے والی ایک لونڈی خاتون کو آزاد کردیا اور فرمایا یہ اولاد اسماعیل سے ہے۔ اس حدیث سے نسبی شرافت پر بھی کافی روشنی پڑتی ہے۔ اسلام نے نسبی شرافت میں غلو سے منع فرمایا ہے اور حد اعتدال میں نسبی شرافت کو آپ نے قائم رکھا ہے جیسا کہ اس حدیث سے پیچھے مذکور شدہ واقعات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر اپنے آپ کو عبدالمطلب کا فرزند ہونے پر اظہار فخر فرمایا تھا۔ معلوم ہوا کہ اسلام سے پہلے کے غیرمسلم آباءو اجداد پر ایک مناسب حد تک فخر کیا جاسکتا ہے لیکن اگر یہی فخر باعث گھمنڈ و غرور بن جائے کہ دوسرے لوگ نگاہ میں حقیر نظر آئیں تو اس حالت میں خاندانی فخر کفر کا شیوہ ہے جو مسلمان کے لیے ہرگز لائق نہیں۔ فتح مکہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی اس نخوت کے خلاف اظہار ناراضگی فرماکر قریش کو آگاہ فرمایاتھا کہ کلکم بنو آدم و آدم من تراب تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کی پیدائش مٹی سے ہے۔