You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالعُمْرَى، أَنَّهَا لِمَنْ وُهِبَتْ لَهُ»
Narrated Jabir: The Prophet gave the verdict that `Umra is for the one to whom it is presented.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمریٰ کے متعلق فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس کا ہوجاتا ہے جسے ہبہ کیا گیا ہو۔
عمریٰ کسی شخص کو مثلاً عمر بھر رہنے کے لیے مکان دینا۔ رقبیٰ یہ ہے مثلاً کسی کو ایک مکان دے اس شرط پر کہ اگر دینے والا پہلے مرجائے تو مکان اس کا ہوگیا اور اگر لینے والا پہلے مرجائے تو مکان پھر دینے والے کا ہوجائے گا۔ اس میں ہر ایک دوسرے کی موت کو تکتا رہتا ہے۔ اس لیے اس کا نام رقبیٰ ہوا۔ یہ دونوں عقد جاہلیت کے زمانے میں مروج تھے۔ جمہور علماءکے نزدیک دونوں صحیح ہیں اور امام ابوحنیفہ نے رقبیٰ کو منع رکھا ہے۔ اور جمہور علماءکے نزدیک عمریٰ لینے والے کا ملک ہوجاتا ہے اور دینے والے کی طرف نہیں لوٹتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث اس باب میں بیان کی، اس میں صرف عمریٰ کا ذکر ہے رقبیٰ کا نہیں۔ اور شاید انہوں نے دونوں کو ایک سمجھا۔ ( وحیدی ) حافظ صاحب فرماتے ہیں: والعمریٰ بضم المہملۃ وسکون المیم مع القصر و حکی ضم المیم مع ضم اولہ وحکی فتح اولہ مع السکون ماخوذ من العمر والرقبیٰ بوزنہا من المراقبۃ لانہم کانوا یفعلون ذلک فی الجاہلیۃ فیعطی الرجل الدار و یقول لہ اعمر تک ایاہا اے ربحتہا لک مدۃ عمرک فقیل لہا عمری لذلک و کذا قیل لہا رقبیٰ لان کلامنہما یرقب متی یموت الاخرلترجع الیہ وکذا ورثتہ فیقومون مقامہ فی ذلک ہذا اصلہا لغۃ و اما شرعا فالجمہور علی ان العمری اذا وقعت کانت ملکا للآخذ ولا ترجع الی الاول الا ان صرح باشتراط ذلک و ذہب الجمہور الی صحۃ العمری ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ لفظ عمریٰ عمر سے ماخوذ ہے اور رقبیٰ مراقبہ سے۔ اس لیے کہ جاہلیت میں دستور تھا کوئی آدمی بطور عطیہ کسی کو اپنا گھر اس شرط پر دے دیتا کہ یہ گھر صرف تیری مدت عمر تک کے لیے میں تجھے بخشش کرتا ہوں اسی لیے اسے عمریٰ کہاگیا اور رقبیٰ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی موت کا منتظر رہتا کہ کب وہ موہوب لہ انتقال کرے اور کب گھر واہب کو واپس ملے۔ اسی طرح اس کے وارث منتظر رہتے۔ یہ لغوی طور پر ہے شرعاً یہ کہ جمہور کے نزدیک عمریٰ جب واقع ہوجائے تو وہ لینے والے کی ملکیت بن جاتاہے اور اول کی طرف واپس نہیں ہوسکتا۔ مگر اس صورت میں کہ دینے والا صراحت کے ساتھ واپسی کی شرط لگادے اور جمہور کے نزدیک عمریٰ صحیح ثابت ہوجاتا ہے۔