You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا الحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: إِنَّ أُنَاسًا كَانُوا يُؤْخَذُونَ بِالوَحْيِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ الوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ، وَإِنَّمَا نَأْخُذُكُمُ الآنَ بِمَا ظَهَرَ لَنَا مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا خَيْرًا، أَمِنَّاهُ، وَقَرَّبْنَاهُ، وَلَيْسَ إِلَيْنَا مِنْ سَرِيرَتِهِ شَيْءٌ اللَّهُ يُحَاسِبُهُ فِي سَرِيرَتِهِ، وَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا سُوءًا لَمْ نَأْمَنْهُ، وَلَمْ نُصَدِّقْهُ، وَإِنْ قَالَ: إِنَّ سَرِيرَتَهُ حَسَنَةٌ
Narrated `Umar bin Al-Khattab: People were (sometimes) judged by the revealing of a Divine Inspiration during the lifetime of Allah's Apostle but now there is no longer any more (new revelation). Now we judge you by the deeds you practice publicly, so we will trust and favor the one who does good deeds in front of us, and we will not call him to account about what he is really doing in secret, for Allah will judge him for that; but we will not trust or believe the one who presents to us with an evil deed even if he claims that his intentions were good.
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے ، کہا کہ مجھ سے حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن عتبہ نے اور انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہو جاتا تھا ۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا اور ہم صرف انہیں امور میں مواخذہ کریں گے جو تمہارے عمل سے ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے ۔ اس لیے جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا ، ہم اسے امن دیں گے اور اپنے قریب رکھیں گے ۔ اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہوگا ۔ اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے خواہ وہ یہی کہتا رہے کہ اس کا باطن اچھا ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے ان بیوقوفوں کا رد ہوا جو ایک بدکار فاسق کو درویش اور ولی سمجھیں اور یہ دعویٰ کریں کہ ظاہری اعمال سے کیا ہوتا ہے، دل اچھا ہونا چاہئے۔ کہو، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے شخص کو دل کا حال معلوم نہیں ہوسکتا تھا تو تم بے چارے کس باغ کی مولی ہو۔ دل کا حال بجز اللہ کریم کے کوئی نہیں جانتا۔ پیغمبر صاحب کو بھی اس کا علم وحی یعنی اللہ کے بتلانے سے ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قاعدہ بیان کیا کہ ظاہر کی رو سے جس کے اعمال شرع کے موافق ہوں اس کو اچھا سمجھو اور جس کے اعمال شرع کے خلاف ہوں ان کو برا سمجھو۔ اب اگر اس کا دل بالفرض اچھا بھی ہوگا جب بھی ہم اس کے برا سمجھنے میں کوئی مواخذہ وار نہ ہوں گے کیوں کہ ہم نے شریعت کے قاعدے پر عمل کیا۔ البتہ ہم اگر اس کو اچھا سمجھیں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ ( وحیدی ) ترجمہ باب اس سے نکلا کہ فاسق بدکار کی بات نہ مانی جائے گی یعنی اس کی شہادت مقبول نہ ہوگی۔ معلوم ہوا کہ شاہد کے لیے عدالت ضروری ہے۔ عدالت سے مراد یہ ہے کہ مسلمان آزاد، عاقل، بالغ، نیک ہو، تو کافر یا غلام یا مجنون یا نابالغ یا فاسق کی گواہی مقبول نہ ہوگی۔ ( وحیدی ) یہ بھی مقصد ہے کہ عادل گواہ کے ظاہری حالات کا درست ہونا ضروری ہے ورنہ اس کو عادل نہ مانا جائے گا۔ اسلام کا فتویٰ ظاہری حالت پر ہے۔ باطن اللہ کے حوالہ ہے۔ اس میں ان نام نہاد صوفیوں کی بھی تردید ہے جن کا ظاہر سراسر خلاف شرع ہوتا ہے اور باطن میں وہ ایمان دار عاشق خدا و رسول بنتے ہیں۔ ایسے مکار نام نہاد صوفیوں نے ایک خلقت کو گمراہ کررکھا ہے۔ ان میں سے بعض تو اتنے بے حیا واقع ہوئے ہیں کہ نماز روزہ کی کھلے لفظوں میں تحقیر کرتے ہیں، علماءکی برائیاں کرتے ہیں، شریعت اور طریقت کو الگ الگ بتلاتے ہیں۔ ایسے لوگ سراسر گمراہ ہیں۔ ہرگز ہرگز قابل قبولیت نہیں ہیں بلکہ وہ خود گمراہ اور مخلوق کے گمراہ کرنے والے ہیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے کہ کل حقیقۃ لایشہد لہ الشرع فہو زندقۃ ہر وہ حقیقت جس کی شہادت شریعت سے نہ ملے وہ بددینی اور بے ایمانی اور زندیقیت ہے۔ نعوذ باﷲ من شرور انفسنا ومن سیات اعمالنا۔