You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ زَهْدَمَ بْنَ مُضَرِّبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ» - قَالَ عِمْرَانُ: لاَ أَدْرِي أَذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةً - قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَخُونُونَ وَلاَ يُؤْتَمَنُونَ، وَيَشْهَدُونَ وَلاَ يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَنْذِرُونَ وَلاَ يَفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ»
Narrated Zahdam bin Mudrab: I heard `Imran bin Husain saying, The Prophet said, 'The best people are those living in my generation, then those coming after them, and then those coming after (the second generation). `Imran said I do not know whether the Prophet mentioned two or three generations after your present generation. The Prophet added, 'There will be some people after you, who will be dishonest and will not be trustworthy and will give witness (evidences) without being asked to give witness, and will vow but will not fulfill their vows, and fatness will appear among them.
ہم سے آدم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا کہ میں نے زہدم بن مضرب رحمہ اللہ سے سنا کہ میں نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ( صحابہ ) ہیں ۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے ( تابعین ) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے ۔ ( تبع تابعین ) عمران نے بیان کیا کہ میں نہیں جانتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زمانوں کا ( اپنے بعد ) ذکر فرمایا یا تین کا پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو چور ہوں گے ، جن میں دیانت کا نام نہ ہوگا ۔ ان سے گواہی دینے کے لیے نہیں کہا جائے گا ۔ لیکن وہ گواہیاں دیتے پھریں گے ۔ نذریں مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے ۔ مٹاپا ان میں عام ہوگا ۔
مطلب یہ ہے کہ نہ گواہی میں ان کو باک ہوگا نہ قسم کھانے میں، جلدی کے مارے کبھی گواہی پہلے ادا کریں گے پھر قسم کھائیں گے۔ کبھی قسم پہلے کھالیں گے پھر گواہی دیں گے۔ حدیث کے جملہ ویشہدون ولا یستشہدون پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و یعارضہ ما رواہ مسلم من حدیث زیدن خالد مرفوعاً الا اخبرکم بخیر الشہداءالذی یاتی بالشہادۃ قبل ان یسالہا و اختلف العلماءفی ترجیحہما فجنح ابن عبدالبر الی ترجیح حدیث زید بن خالد لکونہ من روایۃ اہل المدینۃ فقدمہ علی روایۃ اہل العراق و بالغ فزعم ان حدیث عمران ہٰذا اصل لہ وجنح غیرہ الی ترجیح حدیث عمران لاتفاق صاحبی الصحیح علیہ و انفراد مسلم باخراج حدیث زید بن خالد و ذہب اخرون الیٰ الجمع بینہما الخ ( فتح ) یعنی ویشہدون ولا یستشہدون سے زید بن خالد کی حدیث مرفوع معارض ہے، جسے امام مسلم نے روایت کی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم کو بہترین گواہوں کی خبر نہ دوں؟ وہ وہ لوگ ہوں گے کہ وہ طلبی سے پہلے ہی خود گواہی دے دیں۔ ہردواحادیث کی ترجیح میں علماءکا اختلاف ہے۔ ابن عبدالبر نے حدیث میں زید بن خالد ( مسلم ) کو ترجیح دی ہے کیوں کہ یہ اہل مدینہ کی روایت ہے۔ اور حدیث مذکور اہل عراق کی روایت سے ہے۔ پس اہل عراق پر اہل مدینہ کو ترجیح حاصل ہے۔ انہوں نے یہاں تک مبالغہ کیا کہ حدیث عمران مذکورہ کو کہہ دیا کہ اس کی کوئی اصل نہیں ( حالانکہ ان کا ایسا کہنا بھی صحیح نہیں ہے ) دوسرے علماءنے حدیث عمران کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے کہ اس پر ہر دو اماموں امام بخاری و امام مسلم کا اتفاق ہے۔ اور حدیث زید بن خالد کو صرف امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ تیسرا گروہ ان علماءکا ہے جو ان ہر دو احادیث میں تطبیق دینے کا قائل ہے۔ پہلی تطبیق یہ دی گئی ہے کہ حدیث زید میں ایسے شخص کی گواہی مراد ہے جسے کسی انسان کا حق معلوم ہے اور وہ انسان خود اس سے لاعلم ہے، پس وہ پہلے ہی جاکر اس صاحب حق کے حق میں گواہی دے کر اس کا حق ثابت کردیتا ہے۔ یا یہ کہ اس شہادت کا کوئی اور عالم زندہ نہ ہو پر وہ اس شہادت کے مستحقین ورثہ کو خود مطلع کردے اور گواہی دے کر ان کو معلوم کرادے۔ اس جواب کو اکثر علماءنے پسند کیا ہے۔ اور بھی کئی توجیہات کیگئی ہیں جو فتح الباری میں مذکور ہیں۔ پس بہتر یہی ہے کہ ایسے تعارضات کو مناسب تطبیق سے اٹھایا جائے نہ کہ کسی صحیح حدیث کا انکار کیا جائے۔