You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ، يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ» تَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle said, It is not permissible for any Muslim who has something to will to stay for two nights without having his last will and testament written and kept ready with him.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے‘ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے جن کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے۔ امام مالک کے ساتھ اس روایت کی متابعت محمد بن مسلم نے عمر و بن دینار سے کی ہے‘ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
آیت شریفہ کتب عليکم اذا حضر احد کم الموت ان ترک خير االوصي ( البقرہ: 180 ) آیت میراث سے پہلے نازل ہوئی۔ اس وقت وصیت کرنا فرض تھا۔ جب میراث کی آیت اتری تو وصیت کی فرضیت جاتی رہی اور وارث کے لئے وصیت کرنا منع ہوگیا جیسا کہ عمروبن خارجہ کی روایت میں ہے ان اللہ اعطٰے کل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث ( اخرجہ اصحاب السنن ) اور‘ غیر وارث کے لئے وصیت جائز رہ گئی۔ آیت شریفہ ( فمن بدلہ‘ بعد ما سمعہ ) ( البقرہ : 181 ) کا مطلب یہ ہے کہ وصیت بدل دینا گناہ ہے مگر جس صورت میں موصی نے خلاف شریعت وصیت کی ہو اور ثلث سے زائد کسی کو دلاکر وارث کا حق تلف کیا ہو تو ایسی غلط وصیت کو بدل ڈالنا منع نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ موصی لہ اور دیگر وارثوں میں صلح صفائی کرا دے اور مطابق شریعت فیصلہ کرکے وصیت کی اصلاح کر دے ۔ وصیت الرجل مکتوب عندہ یہ مضمون خود باب کی حدیث میں آگے آرہا ہے مگر اس میں مرءکا لفظ اور لفظ رجل کے ساتھ یہ حدیث نہیں ملی۔ شاید حضرت امام بخاری رضی اللہ عنہ نے اسے بالمعنی روایت کیا ہو کیونکہ مرء رجل ہی کو کہتے ہیں اور رجل کی قید اعتبار اکثر کے ہے ورنہ عورت اور مرددونوں کی وصیت صحیح ہونے میں کوئی فرق نہیں‘ اسی طرح نابالغ کی وصیت بھی صحیح ہے‘ جب وہ عقل اور ہوش رکھتا ہو ۔ ہمارے امام احمد بن حنبل اور امام مالک کا یہی قول ہے لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس کو جائز کہاں رکھا ہے امام احمد نے ایسے لڑکے کی عمر کا اندازہ سات برس یا دس برس کا کیا ہے۔ وصیت کا ہر وقت لکھا ہوا ہونا اس لئے ضروری ہے کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے نہ معلوم کب اللہ پاک کا حکم ہو اور انسان کا اخروی سفر شروع ہوجائے‘ لہذا لازم ہے کہ اس سفر کے لئے ہر وقت تیار رہے اور اپنے بعد کے لئے ضروری معاملات کے واسطے اسے جو بہتر معلوم ہو وہ لکھا ہوا اپنے پاس تیار رکھے۔ حدیث کن فی الدنیا کانک غریب کا بھی یہی مطلب ہے کہ دنیامیں ہر وقت مسافرانہ زندگی گزارونہ معلوم کب کوچ کا وقت آجائے۔