You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِخَمْسِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي القَعْدَةِ، وَلاَ نُرَى إِلَّا الحَجَّ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالمَرْوَةِ، أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: «نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ»، قَالَ يَحْيَى: فَذَكَرْتُ هَذَا الحَدِيثَ لِلقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: أَتَتْكَ وَاللَّهِ بِالحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ
Narrated `Aisha: We set out in the company of Allah's Apostle five days before the end of Dhul Qa'da intending to perform Hajj only. When we approached Mecca Allah's Apostle ordered those who did not have the Hadi (i.e. an animal for sacrifice) with them, to perform the Tawaf around the Ka`ba, and between Safa and Marwa and then finish their Ihram. Beef was brought to us on the day of (i.e. the days of slaughtering) and I asked, What is this? Somebody said, Allah's Apostle has slaughtered (a cow) on behalf of his wives.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا امام مالک سے ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمن نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ سے ( حجۃ الوداع کے لیے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے ۔ ہفتہ کے دن ہمارا مقصد حج کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا ۔ جب ہم مکہ سے قریب ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو جب وہ بیت اللہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہو جائے تو احرام کھول دے ۔ ( پھر حج کے لیے بعد میں احرام باندھے ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ دسویں ذی الحجہ کو ہمارے یہاں گائے کا گوشت آیا ، میں نے پوچھا کہ گوشت کیسا ہے ؟ تو بتایا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے جو گائے قربانی کی ہے یہ اسی کا گوشت ہے ۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ میں نے اس کے بعد اس حدیث کا ذکر قاسم بن محمد سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ قسم اللہ کی ! عمرہ بنت عبدالرحمن نے تم سے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے ۔
یہاں بھی آنحضرتﷺ کے سفر حج مبارک کا ذکر ہے کہ آپﷺ آخر ماہ میں اس کے لئے نکلے اور یہ موقع بھی ایسا ہی تھا۔ پس جہاد کے لئے بھی امام جیسا موقع دیکھے سفر شروع کرے۔ اگر مہینہ کے آخری دنوں میں نکلنے کا موقع مل سکے تو یہ اور بہتر ہوگا کہ سنت نبوی پر عمل ہوسکے گا۔ بہرحال یہ امام کی صواب دید پر ہے۔ روایت میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا نام آیا ہے‘ جن کا نام مالک بن انس بن مالک بن عامر اصجی ہے۔ ابو عبداللہ کنیت ہے‘ امام دارلحجرۃ و امیر المؤمنین فی الحدیث کے لقب سے مشہور ہیں ان کے دادا عامر اصجی صحابی ہیں جو بدر کے سوا تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ امام صاحب ۹۳ھ میں پیدا ہوئے۔ تبع تابعین میں سے ہیں۔ اگرچہ مدینہ مولد و مسکن تھا مگر کسی صحابی کے دیدار سے مشرف نہیں ہوئے۔ یہ شرف کیا کم ہے کہ امام دار الھجرۃ تھے۔ حرم محترم نبیﷺ کے مدرس و مفتی نافع ربیعہ رائی‘ امام جعفر صادق اور ابو حازم وغیرہ بہت شیوخ سے علم حاصل کیا جن کی تعداد نو سو بیان کی گئی ہے۔ نافع نے وفات پائی تو امام صاحب ان کے جانشین ہوئے‘ اس وقت آپ کی سترہ سال کی عمر تھی۔ امام صاحب کی جائے سکونت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مکان اور نشست گاہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مکان تھا۔ امام صاحب کی مجلس درس نہایت آراستہ وپیراستہ ہوتی تھی۔ سب لوگ مؤدب بیٹھتے تھے‘ امام صاحب غسل کرکے خوشبو لگا کر عمدہ لباس پہن کر نہایت وقار و متانت سے بیٹھتے تھے‘ خلیفہ ہارون رشید خود حاضر درس ہوتا تھا‘ عالم شرق سے غرب تک امام صاحب کے آوازہ شہرت سے گونج اٹھا۔ شیخ عبدالرحمن بن مہدی کا قول ہے کہ روئے زمین پر مالک سے بڑھ کر کوئی حدیث نبوی کا امانت دار نہیں۔ امام صاحب نے ایک لاکھ حدیثیں لکھی تھیں ان کا انتخاب مؤطا ہے (مقدمہ شرح مؤطا) امام صاحب سخی و عابد و مرتاض تھے۔ اہل علم کی بہت مدد کرتے تھے‘ امام شافعیؒ کو گیارہ ہزار دیتے تھے‘ امام صاحب کے اصطبل میں بہت سے گھوڑے تھے مگر کبھی گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ میں نہ نکلتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ جو زمین رسول کریمﷺ کے قدم مبارک سے مشرف ہوئی ہے اس کو میں جانوروں کے سموں سے روندوں۔ امام صاحب کے تلامذہ کی تعداد تیرہ سو ہے‘ ان میں بڑے بڑے ائمہ اور محدثین اور امراء شامل ہیں۔ مالکی مذہب کی پیروی کرنے والے عرب اور شمالی افریقہ میں ہیں۔ امام مالک کی بہت سی تصانیف ہیں زیادہ مشہور مؤطا ہے۔ کتاب المسائل ہیں۔ خلیفہ ابو العباس سفاح کے سامنے بہت سے منتشر اوراق پڑھے تھے جن کے متعلق خلیفہ نے کہا کہ یہ امام مالک کے ستر ہزار مسائل کا مجموعہ ہے۔ (تزئین المالک) جس حدیث کا سلسلہ روایت مالک عن ناففع عن ابن عمر ہوگا‘ اس کو سلسلۃ الذہب کہتے ہیں۔ جعفر گورنر مدینہ نے امام صاحب کو حکم دیا کہ آئندہ طلاق (جبری) کا فتویٰ نہ دیا کریں‘ امام صاحب کو کتمان حق گوارا نہ ہوا۔ تعمیل حکم نہ کی‘ جعفر نے غضب ناک ہو کر ستر کوڑے لگوائے۔ تمام پیٹھ خون آلود ہوگئی‘ دونوں ہاتھ مونڈھوں سے اتر گئے۔ خلیفہ منور جب مدینہ آیا تو امام صاحب سے عذر کیا اور کہا مجھ کو آپ کی تعزیر کا علم نہیں۔ میں جعفر کو سزا دوں گا۔ امام صاحب نے فرمایا میں نے معاف کیا‘ ۱۷۹ھ میں وفات پائی‘ ابن مبارک و یحییٰ قطان ان کے شاگرد تھے۔ امام صاحب اپنے اس شعر کو اکثر پڑھا کرتے تھے جس میں انہوں نے ایک حدیث کے مضمون کو لیا ہے۔ خیر الامور الدین ما کان سنتہ وشر الامور المحدثات البدایع