You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَوْهَبٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ مَنْ هَؤُلَاءِ الْقُعُودُ قَالُوا هَؤُلَاءِ قُرَيْشٌ قَالَ مَنْ الشَّيْخُ قَالُوا ابْنُ عُمَرَ فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ أَتُحَدِّثُنِي قَالَ أَنْشُدُكَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَتَعْلَمُهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَخَلَّفَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَكَبَّرَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ تَعَالَ لِأُخْبِرَكَ وَلِأُبَيِّنَ لَكَ عَمَّا سَأَلْتَنِي عَنْهُ أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ مَرِيضَةً فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ لَبَعَثَهُ مَكَانَهُ فَبَعَثَ عُثْمَانَ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَمَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ فَقَالَ هَذِهِ لِعُثْمَانَ اذْهَبْ بِهَذَا الْآنَ مَعَكَ
Narrated `Uthman bin Mauhab: A man came to perform the Hajj to (Allah's) House. Seeing some people sitting, he said, Who are these sitting people? Somebody said, They are the people of Quraish. He said, Who is the old man? They said, Ibn `Umar. He went to him and said, I want to ask you about something; will you tell me about it? I ask you with the respect due to the sanctity of this (Sacred) House, do you know that `Uthman bin `Affan fled on the day of Uhud? Ibn `Umar said, Yes. He said, Do you know that he (i.e. `Uthman) was absent from the Badr (battle) and did not join it? Ibn `Umar said, Yes. He said, Do you know that he failed to be present at the Ridwan Pledge of allegiance (i.e. Pledge of allegiance at Hudaibiya) and did not witness it? Ibn `Umar replied, Yes, He then said, Allahu- Akbar! Ibn `Umar said, Come along; I will inform you and explain to you what you have asked. As for the flight (of `Uthman) on the day of Uhud, I testify that Allah forgave him. As regards his absence from the Badr (battle), he was married to the daughter of Allah's Apostle and she was ill, so the Prophet said to him, 'You will have such reward as a man who has fought the Badr battle will get, and will also have the same share of the booty.' As for his absence from the Ridwan Pledge of allegiance if there had been anybody more respected by the Meccans than `Uthman bin `Affan, the Prophet would surely have sent that man instead of `Uthman. So the Prophet sent him (i.e. `Uthman to Mecca) and the Ridwan Pledge of allegiance took place after `Uthman had gone to Mecca. The Prophet raised his right hand saying. 'This is the hand of `Uthman,' and clapped it over his other hand and said, This is for `Uthman.' Ibn `Umar then said (to the man), Go now, after taking this information.
ہم سے عبدان نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابو حمزہ نے خبر دی ، ان سے عثمان بن موہب نے بیان کیا کہ ایک صاحب بیت اللہ کے حج کے لیے آئے تھے۔ دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پوچھا کہ یہ بیٹھے ہوئے کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ قریش ہیں۔ پوچھا کہ ان میں شیخ کون ہیں ؟ بتایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما۔ وہ صاحب ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ آپ مجھ سے واقعات ( صحیح ) بیان کردیجئے۔ اس گھر کی حرمت کی قسم دے کر میں آپ سے پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے غزوئہ احد کے موقع پر راہ فرار اختیار کی تھی ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں صحیح ہے۔ انہوں نے پوچھاآپ کو یہ بھی معلوم ہے عثمان رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں تھے ؟ کہا کہ ہاں یہ بھی ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان ( صلح حدیبیہ ) میں بھی پیچھے رہ گئے تھے اور حاضر نہ ہو سکے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ اس پر ان صاحب نے ( مارے خوشی کے ) اللہ اکبر کہا لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا۔ یہاں آؤ میں تمہیں بتاؤں گا اور جو سوالات تم نے کئے ہیں ان کی میں تمہارے سامنے تفصیل بیان کر دوں گا۔ احد کی لڑائی میں فرار سے متعلق جو تم نے کہا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی معاف کردی ہے۔ بدر کی لڑائی میں ان کے نہ ہونے کے متعلق جو تم نے کہا تو اس کی وجہ یہ تھی۔ کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ( رقیہ رضی اللہ عنہا ) تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ تمہیں اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوگا اور اسی کے برابر مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا۔ بیعت رضوان میں ان کی عدم شرکت کا جہاں تک سوال ہے تو وادی مکہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص ہر دل عزیز ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بجائے اسی کو بھیجتے۔ اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجنا پڑااور بیعت رضوان اس وقت ہوئی جب وہ مکہ میں تھے۔ ( بیعت لیتے ہوئے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو اٹھاکر فرمایا کہ یہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے ( بائیں ) ہاتھ پر مار کر فرمایا کہ یہ بیعت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہے۔ اب جاسکتے ہو۔ البتہ میری باتوں کو یاد رکھنا۔
حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر یہ اعتراضات کرنے والا کوئی خارجی تھا جو واقعات کی ظاہری سطح کو بیان کر کے ان کی برائی کرنا چاہتا تھا مگر جسے اللہ عزت عطا کرے اس کی برائی کرنے والا خود براہے ( رضی اللہ عنہ وارضاہ ) غزوئہ احد کے موقع پر عام مسلمانوں میں کفار کے اچانک حملہ کی وجہ سے گھبرہٹ پھیل گئی تھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے اور دو ایک صحابہ کے ساتھ کفار کے تمام حملوں کا انتہائی پا مردی سے مقابلہ کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو آواز دی اور پھر تمام صحابہ جمع ہوگئے ۔ اللہ تعالی نے صحابہ کی اس غلطی کو معاف کردیا اور اپنی معافی کاخود قرآن مجید میں اعلان کیا۔ اکثر صحابہ منتشر ہو گئے تھے اور انہیں میں عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں کو اس غزوہ میں اگرچہ نقصان بہت اٹھانا پڑا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمانوں نے غزوئہ احد میں شکست کھائی ۔ کیونکہ نہ مسلمانوں نے ہتھیار ڈالے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ چھوڑا تھا ۔ فوج یعنی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اگر تھوڑی دیر کے لیے انتشار پیدا ہوگیا تھا لیکن پھر یہ سب حضرات بھی جلد ہی میدان میں آگئے ۔ یہ بھی نہیں ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے میدان چھوڑدیا ہو بلکہ غیر متوقع صورت حال سے گھبراہٹ اور صفوں میں انتشار پیدا ہو گیا تھا ۔ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکارا تو وہ فوراً سنبھل گئے اور پھر آکر آپ کے چاروں طرف جمع ہوگئے اور آخر میں کفار کو فرار کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ عظیم نقصانات کے باوجود آخری فتح مسلمانوں کو ہی نصیب ہوئی۔ احادیث بالا میں یہی مضامین بیان میں آرہے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق سوالات کرنے والا مخالفین میں سے تھا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کے سوالات کو تفصیل کے ساتھ حل فرمادیا۔ مگر جن لوگوں کو کسی سے نا حق بغض ہو تاہے وہ کسی بھی طور مطمئن نہیں ہو سکتے ۔ آج تک ایسے کج فہم لوگ موجود ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر طعن کرنا ہی اپنے لیے دلیل فضیلت بنائے ہوئے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً ًًخلفائے راشدین ہمارے ہر احترام کے مستحق ہیں ۔ ان کی بشری لغزشیں سب اللہ کے حوالہ ہیں ۔ اللہ تعالی یقینا ان کو معاف کرچکا ہے ۔ رضی اللہ عنہم ولعن اللہ من عادھم۔