You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ يَقُولُ خَرَجْتُ قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ بِالْأُولَى وَكَانَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْعَى بِذِي قَرَدَ قَالَ فَلَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فَقَالَ أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ مَنْ أَخَذَهَا قَالَ غَطَفَانُ قَالَ فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ يَا صَبَاحَاهْ قَالَ فَأَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ ثُمَّ انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي حَتَّى أَدْرَكْتُهُمْ وَقَدْ أَخَذُوا يَسْتَقُونَ مِنْ الْمَاءِ فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ بِنَبْلِي وَكُنْتُ رَامِيًا وَأَقُولُ أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعْ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ وَأَرْتَجِزُ حَتَّى اسْتَنْقَذْتُ اللِّقَاحَ مِنْهُمْ وَاسْتَلَبْتُ مِنْهُمْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً قَالَ وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَدْ حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ وَهُمْ عِطَاشٌ فَابْعَثْ إِلَيْهِمْ السَّاعَةَ فَقَالَ يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ قَالَ ثُمَّ رَجَعْنَا وَيُرْدِفُنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ
Narrated Salama bin Al-Akwa`: Once I went (from Medina) towards (Al-Ghaba) before the first Adhan of the Fajr Prayer. The shecamels of Allah's Apostle used to graze at a place called Dhi-Qarad. A slave of `Abdur-Rahman bin `Auf met me (on the way) and said, The she-camels of Allah's Apostle had been taken away by force. I asked, Who had taken them? He replied (The people of) Ghatafan. I made three loud cries (to the people of Medina) saying, O Sabahah! I made the people between the two mountains of Medina hear me. Then I rushed onward and caught up with the robbers while they were watering the camels. I started throwing arrows at them as I was a good archer and I was saying, I am the son of Al-Akwa`, and today will perish the wicked people. I kept on saying like that till I restored the shecamels (of the Prophet), I also snatched thirty Burda (i.e. garments) from them. Then the Prophet and the other people came there, and I said, O Allah's Prophet! I have stopped the people (of Ghatafan) from taking water and they are thirsty now. So send (some people) after them now. On that the Prophet said, O the son of Al-Akwa`! You have over-powered them, so forgive them. Then we all came back and Allah's Apostle seated me behind him on his she-camel till we entered Medina.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا ‘ کہا میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں فجر کی اذان سے پہلے ( مدینہ سے باہر غابہ کی طرف نکلا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ دینے والی اونٹنیاں ذات القرد میں چرا کرتی تھیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ راستے میں مجھے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ملے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں پکڑ لی گئیں ہیں ۔ میں پوچھا کہ کس نے پکڑا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ قبیلہ غطفان والوں نے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے تین مرتبہ بڑی زور زور سے پکارا ‘ یا صباحاہ ! انہوں نے بیان کیا کہ اپنی آواز میں نے مدینہ کے دونوں کناروں تک پہنچا دی اور اس کے بعد میں سیدھا تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا آگے بڑھا اور آخر انہیں جالیا ۔ اس وقت وہ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے اترے تھے ۔ میں نے ان پر تیر بر سانے شروع کردیئے ۔ میں تیر اندازی میں ماہر تھا اور یہ شعر کہتا جاتا تھا ” میں ابن الاکوع ہوں ‘ آج ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے “ میں یہی رجز پڑھتا رہا اور آخر اونٹنیاں ان سے چھڑالیں بلکہ تیس چادریں ان کی میرے قبضے میں آگئیں ۔ سلمہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر آگئے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے تیر مار مار کر ان کو پانی نہیں دیا اور وہ ابھی پیاسے ہیں ۔ آپ فوراً ان کے تعاقب کے لیے فوج بھیج دیجئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن الاکوع ! جب تو کسی پر قابو پا لے تو نرمی اختیار کر ۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ پھر ہم واپس آگئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی اونٹی پر پیچھے بٹھا کر لائے یہا ں تک کہ ہم مدینہ واپس آگئے ۔
مسلمانوں کا یہ ڈاکوؤں سے مقابلہ تھا جو بیس عدد دودھ دینے والی اونٹنیاں اہل اسلام کی پکڑ کر لے جارہے تھے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی بہادری نے اس میں مسلمانوں کو کامیابی بخشی اور جانور ڈاکوؤں سے حاصل کر لئے گئے۔ ایک روایت میں ان کو فزارہ کے لوگ بتلایا گیا ہے۔ یہ بھی غطفان قبیلے کی شاخ ہے۔ سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ایک روایت یوں ہے کہ میں سلع پہاڑی پر چڑھ گیا اور میں نے ایسے موقع کا لفظ یا صباحاہ اس زور سے نکالا کہ پورے شہر مدینہ میں اس کی خبر ہو گئی۔ چار شنبہ کا دن تھا آواز پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ سات سو آدمیوں سمیت نکل کر باہر آ گئے۔ اس موقع پر حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو جوان میرے ساتھ کردیں تو جس قدر بھی ان کے پاس جانور ہیں سب کو چھین کر ان کو گرفتار کر کے لے آتا ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر کیا زریں ارشاد فرمایا کہ ” دشمن قابو میں آجائے تب اس پر نرمی ہی کرنا مناسب ہے۔ “