You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو، قال سمعت مجاهدا، قال سمعت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يقول كان في بني إسرائيل القصاص، ولم تكن فيهم الدية فقال الله تعالى لهذه الأمة {كتب عليكم القصاص في القتلى الحر بالحر والعبد بالعبد والأنثى بالأنثى فمن عفي له من أخيه شىء} فالعفو أن يقبل الدية في العمد {فاتباع بالمعروف وأداء إليه بإحسان} يتبع بالمعروف ويؤدي بإحسان، {ذلك تخفيف من ربكم} ورحمة مما كتب على من كان قبلكم. {فمن اعتدى بعد ذلك فله عذاب أليم} قتل بعد قبول الدية.
Narrated Ibn `Abbas: The law of Qisas (i.e. equality in punishment) was prescribed for the children of Israel, but the Diya (i.e. blood money was not ordained for them). So Allah said to this Nation (i.e. Muslims): O you who believe! The law of Al-Qisas (i.e. equality in punishment) is prescribed for you in cases of murder: The free for the free, the slave for the slave, and the female for the female. But if the relatives (or one of them) of the killed (person) forgive their brother (i.e. the killers something of Qisas (i.e. not to kill the killer by accepting blood money in the case of intentional murder)----then the relatives (of the killed person) should demand blood-money in a reasonable manner and the killer must pay with handsome gratitude. This is an allevitation and a Mercy from your Lord, (in comparison to what was prescribed for the nations before you). So after this, whoever transgresses the limits (i.e. to kill the killer after taking the blood-money) shall have a painful torment. (2.178)
ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے عمر و نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا ، انھوں نے کہاکہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ، انھوں نے بیان کیا کہ بنی اسرائیل میں قصاص یعنی بدلہ تھا لیکن دیت نہیں تھی ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے کہا کہ ” تم پر مقتولوں کے باب میں قصاص فرض کیا گیا ، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام اور عورت کے بدلے میں عورت ، ہاں جس کسی کو اس کے فریق مقتول کی طرف سے کچھ معافی مل جائے ۔ “ تو معافی سے مراد یہی دیت قبول کرنا ہے ۔ سو مطالبہ معقول اور نرم طریقہ سے ہواور مطالبہ کو اس فریق کے پاس خوبی سے پہنچایا جائے ۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رعایت اور مہر بانی ہے ۔ “ یعنی اس کے مقابلہ میں جو تم سے پہلی امتوں پر فرض تھا ۔ ” سو جو کوئی اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا ، اس کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہو گا ۔ “ ( زیادتی سے مراد یہ ہے کہ ) دیت بھی لے لی اور پھر اس کے بعد قتل بھی کردیا ۔
قصاص سے بدلہ لینا مراد ہے جو اسلامی قوانین میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وہ قانون ہے جس کی وجہ سے دنیا میں امن رہ سکتا ہے۔ اگر یہ قانون نہ ہوتا تو کسی ظالم انسان کے لیے کسی غریب کا خون کرناایک کھیل بن کر رہ جاتا۔ مقتول کے وارثوں کی طرف سے معافی کا ملنا بھی اس وقت تک ہے، جب تک مقدمہ عدالت میں نہ پہنچے۔ عدالت میں جانے کے بعد پھر قانون کا لاگو ہوناضروری ہوجاتاہے۔