You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حدثنا منذر بن الوليد بن عبد الرحمن الجارودي، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن موسى بن أنس، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبة ما سمعت مثلها قط، قال لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا . قال فغطى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وجوههم لهم خنين، فقال رجل من أبي قال فلان فنزلت هذه الآية {لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم}. رواه النضر وروح بن عبادة عن شعبة.
Narrated Anas: The Prophet delivered a sermon the like of which I had never heard before. He said, If you but knew what I know then you would have laughed little and wept much. On hearing that, the companions of the Prophet covered their faces and the sound of their weeping was heard. A man said, Who is my father? The Prophet said, So-and-so. So this Verse was revealed: Ask not about things which, if made plain to you, may cause you trouble. (5.101)
ہم سے منذر بن ولید بن عبدالرحمن جارودی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے موسیٰ بن انس نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ دیا کہ میں نے ویسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔ بیان کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے چہرے چھپا لئے ، باوجود ضبط کے ان کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔ ایک صحابی نے اس موقع پر پوچھا ، میرے والد کون ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ” ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں ۔ “ اس کی روایت نضر اور روح بن عبادہ نے شعبہ سے کی ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وعظ موت اور آخرت سے متعلق تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ بے تحاشا رونے لگے کیونکہ ان کو کامل یقین حاصل تھا۔ بے جا سوال کر نے والوں کو اس آیت میں روکا گیا کہ اگر جواب میں اس کی حقیقت کھلی جس کو وہ ناگوار ی محسوس کریں تو پھر اچھا نہیں ہوگا لہذابے جا سوالات کرنے ہی مناسب نہیں ہیں۔ فقہائے کرام نے ایسے بے جا مفروضات گھڑ گھڑ کر اپنی فقاہت کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں، جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ تفصیلات کے لیے کتاب حقیقۃ الفقہ کا مطالعہ کیا جائے۔