You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ فَكَأَنَّ بَعْضَهُمْ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ فَقَالَ لِمَ تُدْخِلُ هَذَا مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ فَقَالَ عُمَرُ إِنَّهُ مَنْ قَدْ عَلِمْتُمْ فَدَعَاهُ ذَاتَ يَوْمٍ فَأَدْخَلَهُ مَعَهُمْ فَمَا رُئِيتُ أَنَّهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيَهُمْ قَالَ مَا تَقُولُونَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا وَسَكَتَ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا فَقَالَ لِي أَكَذَاكَ تَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لَا قَالَ فَمَا تَقُولُ قُلْتُ هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ لَهُ قَالَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَذَلِكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا فَقَالَ عُمَرُ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَقُولُ
Narrated Ibn `Abbas: `Umar used to make me sit with the elderly men who had fought in the Battle of Badr. Some of them felt it (did not like that) and said to `Umar Why do you bring in this boy to sit with us while we have sons like him? `Umar replied, Because of what you know of his position (i.e. his religious knowledge.) One day `Umar called me and made me sit in the gathering of those people; and I think that he called me just to show them. (my religious knowledge). `Umar then asked them (in my presence). What do you say about the interpretation of the Statement of Allah: 'When comes Help of Allah (to you O, Muhammad against your enemies) and the conquest (of Mecca).' (110.1) Some of them said, We are ordered to praise Allah and ask for His forgiveness when Allah's Help and the conquest (of Mecca) comes to us. Some others kept quiet and did not say anything. On that, `Umar asked me, Do you say the same, O Ibn `Abbas? I replied, No. He said, 'What do you say then? I replied, That is the sign of the death of Allah's Messenger which Allah informed him of. Allah said:-- '(O Muhammad) When comes the Help of Allah (to you against your enemies) and the conquest (of Mecca) (which is the sign of your death). You should celebrate the praises of your Lord and ask for His Forgiveness, and He is the One Who accepts the repentance and forgives.' (110.3) On that `Umar said, I do not know anything about it other than what you have said.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے ابو بشر نے ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھے بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھا تے تھے ۔ بعض ( عبدالرحمن بن عوف ) کو اس پر اعتراض ہوا ، انہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ اسے آپ مجلس میں ہمارے ساتھ بٹھاتے ہیں ، اس کے جیسے تو ہمارے بھی بچے ہیں ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے ۔ پھر انہوں نے ایک دن ابن عباس کو بلایا اور انہیں بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ بٹھایا ( ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ) میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے انہیں دکھانے کے لئے بلایا ہے ، پھر ان سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ۔ اذا جاءنصر اللہ الخ یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا ہمیں آیت میں حکم دیا گیا ہے ۔ کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا ۔ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ابن عباس رضی اللہ عنہما ! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کی کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی چیز بتائی ہے اور فرمایا کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی ” یعنی پھر یہ آپ کی وفات کی علامت ہے “ اس لئے آپ اپنے پروردگار کی پاکی وتعریف بیان کیجئے اور اس سے بخشش مانگا کیجئے ۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم نے کہا “
دوسری روایت میں ہے اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا اب تم مجھ کو کیا ملامت کرتے ہو اگر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو تمہارے برابر جگہ دی اور تمہارے ساتھ بلایا۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ اہل فضل اور اہل علم قابل تعظیم ہیں گو ان کی عمر کم ہو اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ علم کے بڑے قدردان تھے اور ہر ایک بادشاہ یا خلیفہ کو علم کی قدردانی اور عالموں کی تعظیم اور تکریم ضروری ہے۔ افسوس مسلمان جو تباہ ہوئے اور غیر قوموں کے دست نگربن گئے وہ جہالت اور کم علمی ہی کی وجہ سے اور اس قدر تباہی پر اب بھی مسلمان امراءعلم کی طرف متوجہ نہیں ہوئے بلکہ جاہلوں اور بے وقوفوں کو اپنا مصاحب بناتے ہیں۔ عالم کی صحبت سے گھبراتے ہیں ۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ( وحیدی )