You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ الْمَدِينَةِ لِحَاجَتِهِ وَخَرَجْتُ فِي إِثْرِهِ فَلَمَّا دَخَلَ الْحَائِطَ جَلَسْتُ عَلَى بَابِهِ وَقُلْتُ لَأَكُونَنَّ الْيَوْمَ بَوَّابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَأْمُرْنِي فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَضَى حَاجَتَهُ وَجَلَسَ عَلَى قُفِّ الْبِئْرِ فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ لِيَدْخُلَ فَقُلْتُ كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ فَوَقَفَ فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْكَ قَالَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَدَخَلَ فَجَاءَ عَنْ يَمِينِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَجَاءَ عُمَرُ فَقُلْتُ كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَجَاءَ عَنْ يَسَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ فَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَامْتَلَأَ الْقُفُّ فَلَمْ يَكُنْ فِيهِ مَجْلِسٌ ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ فَقُلْتُ كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ مَعَهَا بَلَاءٌ يُصِيبُهُ فَدَخَلَ فَلَمْ يَجِدْ مَعَهُمْ مَجْلِسًا فَتَحَوَّلَ حَتَّى جَاءَ مُقَابِلَهُمْ عَلَى شَفَةِ الْبِئْرِ فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ ثُمَّ دَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَجَعَلْتُ أَتَمَنَّى أَخًا لِي وَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يَأْتِيَ قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ فَتَأَوَّلْتُ ذَلِكَ قُبُورَهُمْ اجْتَمَعَتْ هَا هُنَا وَانْفَرَدَ عُثْمَانُ
Narrated Abu Musa Al-Ash`ari: The Prophet went out to one of the gardens of Medina for some business and I went out to follow him. When he entered the garden, I sat at its gate and said to myself, To day I will be the gatekeeper of the Prophet though he has not ordered me. The Prophet went and finished his need and went to sit on the constructed edge of the well and uncovered his legs and hung them in the well. In the meantime Abu Bakr came and asked permission to enter. I said (to him), Wait till I get you permission. Abu Bakr waited outside and I went to the Prophet and said, O Allah's Prophet! Abu Bakr asks your permission to enter. He said, Admit him, and give him the glad tidings of entering Paradise. So Abu Bakr entered and sat on the right side of the Prophet and uncovered his legs and hung them in the well. Then `Umar came and I said (to him), Wait till I get you permission. The Prophet said, Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise. So `Umar entered and sat on the left side of the Prophet and uncovered his legs and hung them in the well so that one side of the well became fully occupied and there remained no place for any-one to sit. Then `Uthman came and I said (to him), Wait till I get permission for you. The Prophet said, Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise with a calamity which will befall him. When he entered, he could not find any place to sit with them so he went to the other edge of the well opposite them and uncovered his legs and hung them in the well. I wished that a brother of mine would come, so I invoked Allah for his coming. (Ibn Al-Musaiyab said, I interpreted that (narration) as indicating their graves. The first three are together and the grave of `Uthman is separate from theirs. )
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبردی، انہیں شریک بن عبداللہ نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے باغات میں کسی باغ کی طرف اپنی کسی ضرورت کے لئے گئے، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے تو میںاس کے دروازے پر بیٹھ گیا اور اپنے دل میں کہا کہ آج میں حضرت کا دربان بنوں گا حالانکہ آپ نے مجھے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ آپ اندر چلے گئے اور اپنی حاجت پوری کی۔ پھر آپ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اور اپنی دونوں پنڈلیوں کو کھلو کر انہیں کنوئیں میں لٹکالیا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر جانے کی اجازت چاہی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ یہیں رہیں، میں آپ کے لیے اجازت لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ کھڑے رہے اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا نبی اللہ! ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت سنادو۔ چنانچہ وہ اندر آگئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب آکر انہوں نے بھی اپنی پنڈلیوں کو کھول کر کنوئیں میں لٹکالیا۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ آئے۔ میں نے کہا ٹھہرو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں( اور میں نے اندر جاکر آپ سے عرض کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو بھی اجازت دے اور بہشت کی خوشخبری بھی۔ خیر وہ بھی آئے اور اسی کنوئیں کی منڈیر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب بیٹھے اور اپنی پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں لٹکادیں۔ اور کنوئیں کی منڈیر بھرگئی اور وہاں جگہ نہ رہی۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے اور میں نے ان سے بھی کہا کہ یہیں رہئے یہاں تک کہ آپ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگ لوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی بشارت دے دو اور اس کے ساتھ ایک آزمائش ہے جو انہیں پہنچے گی۔ پھر وہ بھی داخل ہوئے، ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ چنانچہ وہ گھوم کر ان کے سامنے کنوئیں کے کنارے پر آگئے پھر انہوں نے اپنی پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں پاؤں لٹکالیے، پھر میرے دل میں بھائی( غالباً ابوبردہ یا ابورہم) کی تمنا پیدا ہوئی اور میں دعا کرنے لگا کہ وہ بھی آجاتے، ابن المسیب نے بیان کیا کہ میں نے اس سے ان حضرت کی قبروں کی تعبیرلی کہ سب کی قبریں ایک جگہ ہوں گی لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کی الگ بقیع غرقد میں ہے۔
حضرت عثمان پر بلا سے باغیوں کا بلوہ، ان کو گھیر لینا، ان کے ظلم اور تعدی کی شکایتیں کرنا، خلافت سے اتاردینے کی سازشیں کرنا مراد ہے گو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے مگر ان پر یہ آفتیں نہیں آئیں بلکہ ایک نے دھوکے سے ان کو مارڈالا وہ بھی عین نماز میں۔ باب کا مطلب یہیں سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کی نسبت یہ فرمایا کہ ایک بلا یعنی فتنے میں مبتلا ہوں گے اور یہ فتنہ بہت بڑا تھا اسی کی وجہ سے جنگ جمل اور جنگ صفین واقع ہوئی جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے۔