You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرٍ النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَهُ، وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَكَ، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ الْأَرْضَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ، وَجَعَلَ فِيهَا مَا جَعَلَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَبِالَّذِي خَلَقَ السَّمَاءَ، وَخَلَقَ الْأَرْضَ، وَنَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِنَا، وَلَيْلَتِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا زَكَاةً فِي أَمْوَالِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي سَنَتِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا حَجَّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: ثُمَّ وَلَّى، قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَئِنْ صَدَقَ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ
It is reported on the authority of Anas b. Malik that he said: We were forbidden that we should ask anything (without the genuine need) from the Holy Prophet. It, therefore, pleased us that an intelligent person from the dwellers of the desert should come and asked him (the Holy Prophet) and we should listen to it. A man from the dwellers of the desert came (to the Holy Prophet) and said: Muhammad, your messenger came to us and told us your assertion that verily Allah had sent you (as a prophet). He (the Holy Prophet) remarked: He told the truth. He (the bedouin) said: Who created the heaven? He (the Holy Prophet) replied: Allah. He (the bedouin again) said: Who created the earth? He (the Holy Prophet) replied: Allah. He (the bedouin again) said: Who raised these mountains and who created in them whatever is created there? He (the Holy Prophet) replied: Allah. Upon this he (the bedouin) remarked: By Him Who created the heaven and created the earth and raised mountains thereupon, has Allah (in fact) sent you? He (the Holy Prophet) said: Yes. He (the bedouin) said: Your messenger also told us that five prayers (had been made) obligatory for us during the day and the night. He (the Holy Prophet) remarked: He told you the truth. He (the bedouin) said: By Him Who sent you, is it Allah Who ordered you about this (i. e. prayers)? He (the Holy Prophet) said: Yes. He (the bedouin) said: Your messenger told us that Zakat had been made obligatory in our riches. He (the Holy Prophet) said. He has told the truth. He (the bedouin) said: By Him Who sent you (as a prophet), is it Allah Who ordered you about it (Zakat)? He (the Holy Prophet) said: Yes. He (the bedouin) said: Your messenger told us that it had been made obligatory for us to fast every year during the month of Ramadan. He (the Holy Prophet) said: He has told the truth. He (the bedouin) said: By Him Who sent you (as a prophet), is it Allah Who ordered you about it (the fasts of Ramadan)? He (the Holy Prophet) said: Yes. He (the bedouin) said: Your messenger also told us that pilgrimage (Hajj) to the House (of Ka'bah) had been made obligatory for him who is able to undertake the journey to it. He (the Holy Prophet) said: Yes. The narrator said that he (the bedouin) set off (at the conclusion of this answer, but at the time of his departure) remarked: 'By Him Who sent you with the Truth, I would neither make any addition to them nor would I diminish anything out of them. Upon this the Prophet remarked: If he were true (to what he said) he must enter Paradise.
ہاشم بن قاسم ابونضر نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت کے حوالے سے یہ حدیث سنائی ، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے (غیر ضروری طور پر) کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں بہت اچھا لگتا تھا کہ کوئی سمجھ دار بادیہ نشیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سوال کرے اور ہم (بھی جواب) سنیں ، چنانچہ ایک بدوی آیا اور کہنے لگا ،اے محمد(ﷺ) ! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا تھا ، اس نے ہم سے کہا کہ آپ نے فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ نے فرمایا: ’’ اس نے سچ کہا ۔ ‘‘ اس نے پوچھا : آسمان کس نے بنایا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ اللہ نے ۔ ‘‘ اس نےکہا : زمین کس نےبنائی ؟ آپ نے فرمایا : ’’اللہ نے ۔ ‘‘ اس نے سوال کیا : یہ پہاڑ کس نے گاڑے ہیں اور ان میں جو کچھ رکھا ہے کس نے رکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ اللہ نے ۔ ‘‘ بدوی نے کہا : اس ذات کی قسم ہے جس نے آسمان بنایا، زمین بنائی اور یہ پہاڑ نصب کیے ! کیا اللہ ہی نے آپ کو (رسول بنا کر ) بھیجا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ ہاں! ‘‘ اس نے کہا : آپ کے قاصد نے بتایا ہے کہ ہمارے دن او رات میں پانچ نمازیں ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’اس نے درست کہا ۔‘‘ اس نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے ! کیا اللہ ہی نے آپ کو اس کاحکم دیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ہاں !‘‘ اس نے کہا : آپ کو ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے ذمے ہمارے مالوں کی زکاۃ ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اس نے سچ کہا ۔ ‘‘ بدوی نے کہا : ا س ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا یا ! کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا: ’’ہاں !‘‘ اعرابی نے کہا : آپ کو ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے سال میں ہمارے ذمے ماہ رمضان کے روزے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اس نے صحیح کہا ۔ ‘‘ اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے ! کیا للہ ہی نے آپ کو اس کاحکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں !‘‘ وہ کہنے لگا : آپ کے بھیجے ہوئے (قاصد) کا خیال ہے کہ ہم پر بیت اللہ کا حج فرض ہے، اس شخص پر جو اس کے راستے (کو طے کرنے ) کی استطاعت رکھتا ہو ۔ آپ نے فرمایا ، ’’ اس نے سچ کہا ۔ ‘‘ ( حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : ) پھر وہ واپس چل پڑا اور (چلتے چلتے ) کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں ان پر کوئی اضافہ کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اس نے سچ کر دکھایا تو یقیناً جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘‘
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 63 ´روایت حدیث کا ایک طریقہ شاگرد استاد کو پڑھ کر سنائے` «. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك، يَقُولُ:" بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ . . .» ”. . . انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کون سے ہیں . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 63] تشریح: مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے «فاناخ بعيره على باب المسجد» یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ «مبارك اللهم نعم» کا استعمال فرماتے رہے۔ «اللهم» تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنیٰ کو شامل فرما لیا۔ یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض و قرات کا طریقہ بھی معتبر ہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انہوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔ حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کر لی تھیں لیکن پھر خود حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگر کسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آ سکتی ہو تو ملاقات کر کے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔ صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 63