You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاتَهُ مِنَ اللَّيْلِ كُلَّهَا وَأَنَا مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَنِي فَأَوْتَرْتُ»
A'isha reported: The Apostle of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said his whole prayer (Tahajjud prayer) during the night while I lay between him and the Qibla. When he intended to say Witr (prayer) he awakened me and I too said witr (prayer).
۔ ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی اکرمﷺ رات کو اپنی پوری نماز پڑھتے اور میں آپ کے اور قبلے کے درمیان لیٹی ہوتی تھی اور جب آپ وتر پڑھنا چاہتے، مجھے جگا دیتے تو میں بھی وتر پڑھ لیتی
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 511 ´آدمی کا آدمی کے سامنے نماز پڑھنا ` «. . . رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَإِنِّي لَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ وَأَنَا مُضْطَجِعَةٌ عَلَى السَّرِيرِ، فَتَكُونُ لِي الْحَاجَةُ فَأَكْرَهُ أَنْ أَسْتَقْبِلَهُ فَأَنْسَلُّ انْسِلَالًا . . .» ”. . . حالانکہ میں جانتی ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ کے درمیان (سامنے) چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ مجھے ضرورت پیش آتی تھی اور یہ بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا تھا کہ خود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کر دوں۔ اس لیے میں آہستہ سے نکل آتی تھی . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 511] فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرا (شخص) اس کی طرف منہ کر کے بیٹھے تو کیسا ہے اور ذیل میں حدیث پیش کرتے ہیں کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی رہتی حالانکہ باب کے مطابق آدمی کا آدمی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی حدیث پیش کرتے ہیں مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش فرمائی جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹے رہنا مضر نہ ہوا تو آدمی کے سامنے آدمی کا لیٹنا سامنے منہ کر کے کیوں کر مضر ہو گا؟ حالانکہ یہ بات بھی «ضوء النهار» کی طرح واضح ہے کہ جو احکام نماز کے لیے مردوں پر ہیں وہی عورتوں کے لیے ہیں، الا یہ کہ چند چیزوں کو شارع علیہ السلام نے عورتوں کے لیے مخصوص فرمایا جیسا کہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے نہ ہو گی وغیرہ۔ صاحب اوجزالمسالک رقمطراز ہیں: «في الحديث استقبال الرجل المراة فقيل هما سواء، وقيل لمالم يريها باسا، فالرجل بالاولي» [ابواب والتراجم لصحيح البخاري، ج 2، ص 782] حدیث میں مرد عورت کے استقبال کا ذکر ہے۔ پس دونوں (اس حکم میں) یکساں ہیں (کیونکہ) یہ بھی کہا گیا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے امی عائشہ تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت نہیں فرمائی تو پھر (آدمی) کا آدمی کے سامنے نماز پڑھنا بالاولی جائز ہے۔ ◈ امام کرمانی فرماتے ہیں: «بان حكم الرجل والمراة واحد فى احكام الشريعة» [فتح الباري ج 1 س 772] ”یقیناً مردوں اور عورتوں کا حکم شریعت میں یکساں ہیں۔“ ◈ ابن رشید فرماتے ہیں: «قصد البخاري ان شغل المصلي بالمراة اذا كانت فى قبلته على اي حالة كانت اشد من شغله بالرجل» [فتح الباري ج 1 س 773] ”امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جب نمازی کے آگے عورت لیٹی ہوئی ہو تو اس کا دل اس کی طرف زیادہ مشغول ہوتا ہے بنسبت مرد کے (یعنی جب عورت کا لیٹنا درست ٹھہرا تو مرد کا لیٹنا کیوں درست نہ ہو گا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے)۔“ فائدہ: صحیح مسلم میں حدیث موجود ہے کہ عورت، گدھا اور کتّے کی وجہ سے نمازی کی نماز ٹوٹ جاتی ہے، لہٰذا امام الطحاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو منسوخ گردانا ہے لیکن یہاں پر نسخ ثابت نہ ہو گا کیوں کہ عدم علم تاریخ کے بغیر نسخ کا دعوی بےکار ہے اور اگر تطبیق ممکن ہو تو منسوخ قرار دینے کا تکلف باقی نہیں رہتا جمہور اسی طرف گئے ہیں کہ نماز کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی ہاں البتہ جن احادیث میں نماز ٹوٹنے کا ذکر ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا اس میں یہ قول ملتا ہے: «ومال الشافعي وغيره الي تاويل القطع فى حديث ابي ذربان المراد به نقص الخشوع لا الخروج من الصلاة .» [فتح الباري ج 1 ص 774] امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا میلان اس حدیث (جس میں نماز کے قطع کا حکم ہے کچھ اس طرح سے ہے کہ) قطع کرنے والی جس کو ابوذر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے مراد یہ ہے کہ خشوع میں کمی واقع ہو جاتی ہے جس سے آدمی نماز سے خارج نہیں ہوتا۔ ◈ امام نوی رحمہ اللہ رقمطراظ ہیں: «وتاول هولاء حديث ابي ذر رضى الله عنه على ان المراد بالقطع نقص الصلاة تشغل القلب بهذه الاشياء وليس المراد ايطالها .» [شرح صحيح مسلم ج 4 ص 220] ”یعنی جو حدیث ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (کہ نماز عورت، گدھا اور کتے سے ٹوٹ جاتی ہے) اس سے مراد نماز میں کمی ہونے کے ہیں (کیوں کہ ان اشیاء کا گزرنا) شغل قلب کا باعث ہے اور اس سے مراد نماز کا باطل ہونا نہیں ہے (بلکہ خشوع اور خضوع میں فرق آنا ہے)۔“ ◈ علامہ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو احادیث اس باب پر دلالت کرتی ہیں کہ کتا، عورت اور گدھا نماز کو قطع کر دیتے ہیں تو اس سے مراد نماز کا قطع ہونا (خشوع و خضوع) میں باطل ہونا ہے اور اسی طرح صحابہ کی ایک جماعت گئی ہے جن میں ابوہریرہ، انس بن مالک اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ [نيل الاوطار۔ ج3 ص 17] ◈ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «و ان المراد بالقطع فى الحديث نقص الصلاة يشغل القلب بهذه الاشياء» [الديباج شرح صحيح مسلم بن الحجاج ج1 ص640] ”نماز کے قطع سے مراد یہاں حدیث میں نماز کی کمی ہے کیوں کہ دل ان اشیاء کی وجہ سے شغل میں پڑ جاتا ہے۔“ ◈ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی نماز کا قطع ہونا عورت اور گدھے کی وجہ سے تو یہ مبالغہ ہے اس سبب کہ نماز کا قطع ہونا اور اس کی وجہ سے ان اشیاء کے شغل کے سبب کیوں کہ عورت فتنہ میں ڈالتی ہے اور گدھے کا ہینگنا (وہ بھی خرابی کا باعث بنتا ہے) اور کتا ڈراتا ہے۔ نمازی کو یہاں تک کہ اسے تشویش میں ڈالتا ہے حتیٰ کہ اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے یا (خشوع خضوع میں) بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ [المفهم شرح صحيح مسلم ج2 ص109] صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں!: اور جو تخصیص کی گئی ہے کہ عورت، کتا اور گدھا (نماز کو باطل کر دیتے ہیں) تو پس اس کا معنی یہ نہیں کہ ان تینوں اشیاء کے علاوہ کوئی اور چیز نماز کی برکت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر یہ حکمتیں نہ ہوتیں (یعنی عورت، کتا اور گدھے کی گزرنے کی) تو مرد کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا۔ بلکہ یہ تینوں چیزیں شیطان کے وجود اور فتنہ کی جگہیں ہیں۔ تاکہ (نماز) ختم ہو جائے اور شیطان کی وجہ سے (نمازی) سخت پریشان ہو جائے۔ ترمذی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نکالا ہے کہ عورت یقیناًً پردے کی جگہ ہے اور جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف اشارہ کرتا ہے اور صحیح مسلم میں جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ یقیناًً جب عورت آتی اور جاتی ہے شیطان کی صورت میں اور گدھے کے ہینگنے کے بارے میں بھی موجود ہے کہ وہ شیطان کو دیکھ کر اپنی آواز نکالتاہے (یعنی ہینگنا ہے) اور جہاں تک کتے کے بارے میں ہے تو حدیث کالے کتے کے ساتھ مخصوص ہے۔ کیونکہ کالے کتے کو شیطان کہا گیا ہے۔ یقیناًً کتے کا مطلب خبث ہونا موجود ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتّے ہوں۔ [منة المنعم شرح صحيح مسلم ج1ص328] ◈ محمد بن خلیفۃ الوشتانی الابی رقمطراز ہیں: «وحمل القطع فى هٰذا الحديث على انه مبالغة فى خوف الافساد بالشغل بها» [اكمال اكمال المعلم۔ ج2ص401] ”یعنی نماز کے قطع کرنے کا مقصد اس حدیث میں مبالغہ کے لیے آیا ہے۔ (کیونکہ ان تین اشیاء سے) فساد کے خوف کی وجہ سے اور (ان تین اشیاء میں) شغل بھی ہے۔“ ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ عورت، کتا اور گدھے سے نماز ٹوٹنے سے مراد نماز میں خشوع اور خضوع کا باطل ہونا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ان کتب کی طرف مراجعت مفید رہے گی۔ ➊ فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن حجر رحمہ اللہ ➋ نيل الاوطار شرح منتقي الاخبار للشوكاني رحمہ الله ➌ سبل السلام شرح بلوغ المرام للصنعانی رحمہ اللہ ➍ نصب الراية في تخريج احاديث الهداية للذيلعي رحمہ اللہ ➎ اختلاف الحديث للامام الشافعي رحمہ اللہ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 168