You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، - وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ - قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهْ، مَا شَأْنُكُمْ؟ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ، فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ، مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي، قَالَ: «إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ» أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَ اللهُ بِالْإِسْلَامِ، وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ: «فَلَا تَأْتِهِمْ» قَالَ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ: " ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ، فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ - قَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ: فَلَا يَصُدَّنَّكُمْ - " قَالَ قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ: «كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ» قَالَ: وَكَانَتْ لِي جَارِيَةٌ تَرْعَى غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ، فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا الذِّيبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ، آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَفَلَا أُعْتِقُهَا؟ قَالَ: «ائْتِنِي بِهَا» فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ لَهَا: «أَيْنَ اللهُ؟» قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ: «مَنْ أَنَا؟» قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، قَالَ: «أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ»
Mu'awiya b. al-Hakam said: While I was praying with the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ), a man in the company sneezed. I said: Allah have mercy on you! The people stared at me with disapproving looks, so I said: Woe be upon me, why is it that you stare at me? They began to strike their hands on their thighs, and when I saw them urging me to observe silence (I became angry) but I said nothing. When the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) had said the prayer (and I declare that neither before him nor after him have I seen a leader who gave better instruction than he for whom I would give my father and mother as ransom). I swear that he did not scold, beat or revile me but said: Talking to persons is not fitting during the prayer, for it consists of glorifying Allah, declaring his Greatness. and recitation of the Qur'an or words to that effect. I said: Messenger of Allah. I was till recently a pagan, but Allah has brought Islam to us; among us there are men who have recourse to Kahins. He said, Do not have recourse to them. I said. There are men who take omens. That is something which they find in their breasts, but let it not turn their way (from freedom of action). I said: Among us there are men who draw lines. He said: There was a prophet who drew lines, so if they do it as they did, that is allowable. I had a maid-servant who tended goats by the side of Uhud and Jawwaniya. One day I happened to pass that way and found that a wolf had carried a goat from her flock. I am after all a man from the posterity of Adam. I felt sorry as they (human beings) feel sorry. So I slapped her. I came to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and felt (this act of mine) as something grievous I said: Messenger of Allah, should I not grant her freedom? He (the Holy Prophet) said: Bring her to me. So I brought her to him. He said to her: Where is Allah? She said: He is in the heaven. He said: Who am I? She said: Thou art the Messenger of Allah. He said: Grant her freedom, she is a believing woman.
ہم سے ابو جعفرمحمد بن صباح اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی۔حدیث کے لفظوں میں بھی دونوں ایک دوسرے کے قریب ہیں ۔دونوں نے کہا:ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث بیان کی ‘انھوں نے حجاج صوّاف سے انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے ‘انھوں نے ہلال بن ابی میمونہ سے ‘انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت معاویہ بن ابی حکم سلمیرضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا:میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑ ھ رہاتھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا:یرحمک اللہ’’اللہ تجھ پر رحم کرے ۔‘‘لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا ۔میں نے (دل میں)کہا:میری ماں مجھے گم پائے ‘تم سب کو کیا ہو گیا؟ کہ مجھے گھور رہے ہو پھروہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے ۔جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں (تو مجھے عجیب لگا)لیکن میں خاموش رہا ‘جب رسو ل اللہ نماز سے فارغ ہوئے ‘میرے ماں باپ آپ پرقربان !میں نے آپ سےپہلے اور آپکے بعدآپ سے بہتر کوئی معلم (سکھانےوالا)نہیں دیکھا!اللہ کی قسم !نہ تو آپنے مجھے ڈانٹا ‘نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا ۔ آپنے فرمایا:’’یہ نماز ہے اس میں کسی قسم کی گفتگو روانہیں ہے ‘یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے ۔‘‘یا جیسے رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا۔میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول اللہ !ابھی تھوڑا عرصہ پہلے جاہلیت میں تھا ‘اور اللہ نے اسلام سے نوازدیا ہے ‘ہم میں سے کچھ لوگ ہیں جو کاہنوں (پیش گوئی کرنے والے )کے پاس جاتے ہیں ۔آپنے فرمایا :’’تم ان کے پاس نہ جانا ۔‘‘میں نے عرض کی :ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو بدشگونی لیتےہیں ۔آپن فرمایا:’’یہ ایسی بات ہے جو وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں (ایک طرح کا وہم ہے )یہ (وہم)انھیں (ان کے )کسی کام سے نہ روکے ۔‘‘(محمد)ابن صباح نے روایت کی :’’یہ تمہیں کسی صورت (اپنے کاموں سے ) نہ رزکے ۔‘‘میں نے عرض کی :ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچھنے ہیں۔‘‘آپنے فرمایا :’’سابقہ انبیاء میں سے ایک بنی لکیریں کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں ان کے موافق ہو جائیں وہ تو صحیح ہو سکتی ہیں ‘‘(لیکن اب اس کا جاننا مشکل ہے ۔)(معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے )کہا :میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریا چراتی تھی ‘ایک دن میں اس طرف جاانکلاتو بھیڑیا اس کی بکری لے جا چکا تھا ۔میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں‘مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ان کو ہوتا ہے (مجھے صبر کرناچاہیے تھا)لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑجڑدیا اس کے بعد رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہو اآپنے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی (غلط)حرکت قرار دیا۔میں نے عرض کی :اے اللہ کے رسول !کیا میں اسے آزادنہ کردوں؟آپ نےفرمایا:’’اسے میرےپاس لے آؤ۔‘‘ میں اسے لےکر آپ کےپاس حاضر ہوا ،آپ نےاس سے پوچھا:’’اللہ کہا ں ہے؟ ‘‘ اس نےکہا : آسمان میں۔ آپ نےپوچھا : ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نےکہا: آپ اللہ کےرسول ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا:’’اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 9 ´اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے` «. . . 485- مالك عن هلال بن أسامة عن عطاء بن يسار عن عمر بن الحكم أنه قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله إن جارية لي كانت ترعى غنما لي فجئتها وقد فقدت شاة من الغنم، فسألتها عنها فقالت: أكلها الذئب فأسفت عليها، وكنت من بني آدم فلطمت وجهها، وعلي رقبة أفأعتقها؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أين الله؟“ فقالت: فى السماء، قال لها: ”من أنا؟“ قالت: أنت رسول الله، قال: ”أعتقها“ . . . .» ”. . . سیدنا عمر بن الحکم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ایک لونڈی میری بکریاں چراتی تھی۔ جب میں اس کے پاس آیا تو ایک بکری گم تھی۔ میں نے اس کے بارے میں اس سے پوچھا: تو وہ بولی: اسے بھیڑیا کھا گیا ہے۔ مجھے اس پر غصہ آیا اور میں آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں۔ پس میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارے۔ مجھ پر ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے، کیا میں اسے آزاد کر دوں؟ پھر (جب وہ اپنی لونڈی لائے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے پوچھا: ”اللہ کہاں ہے؟“ اس نے کہا: آسمان پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: ”آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 9] تحقیق: سندہ صحیح تخریج: [الموطا رواية يحييٰ 777، 776/2ح 1550، ك 38 ب 6 ح 8، التمهيد 75/22، الاستدكار: 1479 * و أخرجه النسائي فى الكبريٰ 418/4 ح 7756، من حديث مالك به: ورواه مسلم 537، من حديث هلال به و قال: ”معاوية بن الحكم“ وهوالصواب] تنبیہ: روایت مذکورہ میں عمر کے بجائے معاویہ کا لفظ صحیح ہے یعنی اس حدیث کے راوی سیدنا معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں لکھا ہوا ہے۔ تفقه: ➊ یہ سوال کرنا کہ ”اللہ کہاں ہے؟“ بالکل صحیح اور سنت ہے بلکہ ایمان کی کسوٹی ہے۔ یاد رہے کہ اس سوال کے جواب میں یہ کہنا کہ ”اللہ ہر جگہ بذاتہ موجود ہے“ غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ «كما يليق بجلاله وشأنه» ➋ اسلام میں یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ مسلمانوں پر چار اماموں (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، اور امام أحمد بن حنبل) میں سے صرف ایک امام کی تقلید شخصی واجب ہے اور باقی تینوں کی حرام ہے بلکہ اسلام تو اللہ اور رسول پر ایمان لانے کا نام ہے۔ ➌ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پرمستوی ہے۔ «كما يليق بجلاله» ➍ اہل سنت والجماعتہ کے اکابر علماء نے اپنی تصانیف میں اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا مدلل لکھا ہے مثلا دیکھۓ: صحیح بخاری [كتاب التوحيد باب 22ح7418 تا 7428،] وغیرہ۔ بلکہ بعض علماء نے خاص اس مسئلے علوی باری تعالی پر کتابیں لکھی ہیں مثلا المحدث الصدوق محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کی کتاب العرش، حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب العلوللعلی الغفار اور حافظ ابن تیمیہ کا الرسالتہ العرشیہ [مجموع الفتاوٰيٰ 6/ 545۔ 583] وغیرہ۔ اس عقیدے کو امام ابن خزيمة اور اس جیسی دوسری کتابوں میں بھی تفصیلاََ بیان کیا گیا ہے۔ ➎ سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، زمین اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، کرسی اور پانی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور عرش پانی پر ہے اور اللہ عرش پر ہے اور تمھارے اعمال جانتا ہے۔ [كتاب التوحيد لابن خزيمه ص 105 ح 149، و سنده حسن لذاته، عاصم بن ابي النجو والقاري حسن الحديث و باقي السند صحيح] معلوم ہوا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کوبذاتہ ہر جگہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ عرش پر مستوی مانتے تھے۔ ➏ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ آسمان پر زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی۔ [التاريخ الكبير للبخاري 202/1 و سنده حسن، الرد على الجهميه للامام عثمان بن سعد الدارمي: 78] ➐ مشہور تابعی سعید بن جبیررحمہ اللہ کے شاگرد اور مفسر قرآن ضحاک بن مزاحم رحمہ اللہ [متوفي105ه] نے کہا: «هوا فوق العرش و علمه معهم اينما كانوا» وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی ہوں۔ [تفسير ابن جرير الطبري ج28ص10، و سنده لعبدلله بن أحمد بن حنبل: 592] ➑ امام عبد اللہ بن المبارک المزوری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ھم اپنے رب کو کس طرح پہچانیں؟ تو انہوں نے فرمایا: وہ ساتویں آسمان پر عرش پر ہے، (ذات کے لحاظ سے) جدا ہے۔ [كتاب الرد على الجهميه للامام عثمان بن سعيد الدارمي: 67و سنده صحيح] امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: «نعرف ربنا فوق سبع سموات على العرش استوي بائنا من خلقه ولا نقول كما قالت الجهمية: انه هاهنا۔ واًشار الي الارض۔» ہم جانتے ہیں کہ ہمارارب سات آسمانوں سے اوپرعرش پرمستوی ہے، اپنی مخلوق سے جدا ہے، ہم جہمیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں ہے اور انہوں نے زمین کی طرف اشارہ کیا۔ [عقيده السلف واصحاب الحديث للصابوني ص185، 186، سنده صحيح، دوسرا نسخه ص 20 ح28، السماءوالصفات للبيهقي ص427 دوسرا نسخه ص538، تيسرنسخه ص303، محمد بن عبدالرحمنٰ هوالسامي بالسين المهمله] ➒ امام مالک بن انس رحمہ اللہ (صاحب الموطا) نے فرمایا: «الله عز وجل فى السماءعلمه فى كل مكان، لا يخلو من علمه مكان» اللہ عز وجل آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر مکان (محیط)، اس کے علم سے کوئی باہر نہیں۔ [الشريعه للاجري ص289ح652 وسنده حسن لذاته، مسائل ابي داودص263] ➓ اس عقیدے کے بارے میں سلف صالحین کے بے شمار اقوال ہیں۔ آخر میں صحیح ابن خزیمہ کے مؤلف امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا قول پیشِ خدمت ہے، انہوں نے فرمایا: جو شخص اس کا اقرار نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اور اپنے عرش پر مستوی ہے تو وہ اپنے رب کا کافر ہے، اسے توبہ کرائی جائے ورنہ اس کی گردن مار دی جائے اور گندگی کے کسی ڈھیر پر پھینک دیا جائے۔ الخ [معرفة علوم الحديث للحاكم ص 84 ح187، و سنده صحيح، دوسرا نسخه ص285] تنبیہ: ◈ یاد رہے کہ گردن مارنا، قتل کرنا اور سزائیں دینا مسلمان حکمرانوں کا کام ہے۔ اللہ تعالی کے عرش پرمستوی ہونے کے مزید دلائل کیلۓ دیکھئے میری کتاب”علمی مقالات“ [ج1ص13] موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 485