You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ، مَوْلَى شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يَنْشُدُ ضَالَّةً فِي الْمَسْجِدِ فَلْيَقُلْ لَا رَدَّهَا اللهُ عَلَيْكَ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِهَذَا»
Abu Huraira reported: The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: If anyone hears a man crying out in the mosque about something he has lost, he should say: May Allah not restore it to you, for the mosques were not built for this.
ابن وہب نےہمیں حدیث سنائی ، انھوں نے حیوہ سے ، انھوں نے محمد بن عبدالرحمن سے ، انھوں نے شدادبن ہاد کے آزاد کردہ غلام ابو عبداللہ سے روایت کی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جوشخص کسی آدمی کو مسجد میں کسی گم شدہ جانور کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے سنے تو وہ کہے : اللہ تمھارا جانور تمھیں نہ لوٹائے کیونکہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں بنائی گئیں۔‘‘
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 199 ´مساجد کا بیان` «. . . وعنه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل: لا ردها الله عليك، فإن المساجد لم تبن لهذا» . رواه مسلم . . .» ”. . . ´سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ` جو کوئی یہ سنے کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی گمشدہ چیز تلاش کر رہا ہے تو سننے والا اسے یہ کہے کہ اللہ کرے وہ چیز تمہیں واپس نہ ملے۔ مسجدیں اس مقصد کے لئے تو نہیں بنائی گئی ہیں۔ (مسلم) . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب المساجد: 199] لغوی تشریح: «يَنْشُدُ» ”یا“ پر فتحہ اور ”شین“ پر ضمہ۔ باب «نصر ينصر» کے وزن پر ہے۔ تلاش و طلب کرنا، یا تلاش کرنے کے لئے اونچی آواز سے اعلان کرنا۔ «ضَالَّةً» گم شدہ حیوان۔ اصلی معنی تو یہی ہیں، پھر غیر حیوان کو بھی اسی پر قیاس کر لیا جاتا ہے۔ «لَا رَدَّهَا اللهُ عَلَيْكَ» بظاہر تو اس میں لائے نافیہ معلوم ہوتا ہے اور نفی فعل پر وارد ہوئی ہے۔ دراصل یہ بددعا ہے گم شدہ چیز کے تلاش کرنے والے کے لیے کہ اللہ کرے وہ چیز جسے وہ تلاش کر رہا ہے اسے نہ ملے کیونکہ وہ مسجد میں ایسے کام کا ارتکا ب کر رہا ہے جو اس مقام پر کرنا جائز نہیں ہے۔ «لَمْ تُبْنَ» صیغہ مجہول ہے یعنی مساجد کی تعمیر اس غرض کے لیے نہیں کی گئی۔ فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث میں جو زجر و توضیح ہے اس سے مقصود لوگوں کو اس بات سے باز رکھنا ہے کہ باہر کہیں اس کی کوئی چیز گم ہو جائے اور وہ مسجد میں آ کر اس کی تلاش شروع کر دے۔ یہ آداب مسجد کے خلاف ہے۔ ➋ آج کل مسجدوں میں جو اعلانات کی بھرمار ہے وہ بھی اصلاح طلب ہے، البتہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر آنے جانے والوں سے دریافت کرنے کی گنجائش ہے۔ ➌ اس حدیث میں جانور کا بطور خاص ذکر ہے کیونکہ جانور مسجدوں میں آ کر تو گم نہیں ہوتے، پھر ان کی تلاش یہاں کیا معنی رکھتی ہے۔ بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 199