You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ كِلَاهُمَا عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ قَالَ كَيْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ وَفِي حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ مَا أَرَادَ إِلَى ذَلِكَ قَالَ أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ
Ibn 'Abbas reported that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) combined the noon prayer with the afternoon prayer and the sunset prayer with the 'Isha' prayer in Medina without being in a state of danger or rainfall. And in the hadith transmitted by Waki' (the words are): I said to Ibn 'Abbas: What prompted him to do that? He said: So that his (Prophet's) Ummah should not be put to (unnecessary) hardship. And in the hadith transmitted by Mu'awiya (the words are): It was said to Ibn 'Abbas: What did he intend thereby? He said he wanted that his Ummah should not be put to unnecessary hardship.
ابو معاویہ اور وکیع دونوں نے اعمش سے روایت کی ،انھوں نے حبیب بن ثابت سے انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر،عصر اور مغرب،عشاء کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا۔وکیع کی روایت میں ہے(سعید نے) کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا:تاکہ اپنی امت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا چاہتے ہوئے ایسا کیا؟انھوں نے کہا: آپ نے چاہا اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں۔
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1633 ´اقامت میں دو نمازوں کو جمع کرنا` «. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ . . .» ”. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو مدینہ میں بغیر خوف اور بارش کے جمع کیا (سعید بن جبیر کہتے ہیں:) میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا: اس لئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی امت پر کوئی مشقت نہ ہو. . .“ [صحيح مسلم/كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا/باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ:: 1633] ➋ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی کا بیان ہے: «صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا، وسبعا جميعا، الظهر والعصر، والمغرب والعشاء .» ”میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ظہر و عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشا کی سات رکعات جمع کر کے پڑھیں۔“ [صحيح البخاري: 543، 1174، صحيح مسلم: 55/705] فوائد و مسائل: ◈ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں: «والجمع الذى ذكره ابن عباس لم يكن بهذا ولا بهذا، وبهذا استدل أحمد به على الجمع لهذه الأمور بطريق الأولى، فإن هذا الكلام يدل على أن الجمع لهذه الأمور أولى، وهذا من باب التنبيه بالفعل، فانه اذا جمع ليرفع الحرج الحاصل بدون الخوف والمطر والسفر، فالخرج الحاصل بهذه أولى أن يرفع، والجمع لها أولى من الجمع لغيرها.» ”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جس جمع کا ذکر کیا ہے، وہ نہ خوف کی وجہ سے تھی، نہ بارش کی وجہ سے۔ اسی حدیث سے امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ خوف اور بارش میں تو بالاولیٰ جمع ہو گی. اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور میں نمازوں کو جمع کرنا بالاولیٰ جائز ہے۔ یہ تنبیہ بالفعل کی قبیل سے ہے . جب خوف، بارش اور سفر کے بغیر جو مشقت ہوتی ہے، اس مشقت کو ختم کرنے کے لیے دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، تو ان اسباب کی مشقت کو ختم کرنا تو بالاولیٰ جائز ہو گا، لہٰذا خوف، بارش اور سفر کی بنا پر نمازوں کو جمع کرنا دیگر امور کی بنا پر جمع کی نسبت زیادہ جائز ہو گا۔ [مجموع الفتاوي: 76/24] ◈ محدث العصر، علامہ البانی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول «فى غير خوف ولا مطر» کی شرح میں فرماتے ہیں: «فإنه يشعر أن الجمع للمطر كان معروفا فى عهدم صلى الله عليه وسلم، ولو لم يكن كذلك، لما كان ثمة فائدة من نفي المطر كسبب مبرر للجمع، فتامل» ”یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا معروف تھا۔ غور فرمائیے! اگر ایسا نہ ہوتا، تو بارش کو جمع کے جواز کے سبب کے طور پر ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔“ [ارواءالغليل: 3 40] مکمل مضمون ”بارش میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا“ پڑھئیے۔ ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث\صفحہ نمبر: 238