You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا حَسَدَ إِلَّا عَلَى اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ هَذَا الْكِتَابَ فَقَامَ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَتَصَدَّقَ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ
Salim son of Abdullah b. 'Umar is reported to have said on the authority of his father that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) observed: Envy is not justified but in case of two persons only: one who, having been given (knowledge of) the Qur'an by Allah, recites it during the night and during the day (and acts upon it), and the person who, having been given wealth by God, gives it in charity during the night and the day.
یونس نے ابن شہاب (زہری) سے روایت کی ،انھوں نے کہا: مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد سے حدیث سنائی،انھوں نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو چیزوں کے علاوہ کسی چیز میں حسد (رشک ) نہیں: ایک اس شخص سے متعلق جسے اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب عنایت فرمائی اور اس نے دن رات کی گھڑیوں میں اس کے ساتھ قیام کیا اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال سے نوازا اور اس نے دن رات کے اوقات میں اسے صدقہ کیا۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7529 ´جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا اور رات اور دن اس میں مشغول رہتا ہے` «. . . عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ . . .» ”. . . ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”رشک کے قابل تو دو ہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے قرآن دیا اور وہ اس کی تلاوت رات دن کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے رات و دن خرچ کرتا رہا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7529] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7529 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهْوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَرَجُلٌ يَقُولُ لَوْ أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا فَعَلْتُ كَمَا يَفْعَلُ»:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ کا باب اور تحت الباب احادیث سے غرض یہ ہے کہ قرآن مجید غیر مخلوق ہے اور جو بندہ تلاوت کرتا ہے یہ بندے کا فعل ہے، جو فعل ہونے کے سبب مخلوق ہے کیوں کہ فعل قاری کی نسبت ہے اور وہ مخلوق ہے تو لہٰذا اس کا فعل بھی مخلوق ہی ہو گا۔ علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”آیت « ﴿وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ﴾ » [الروم: 22] میں ہر قسم کا کلام مراد ہے پس اس میں قرآن بھی داخل ہے، اور جو دوسری آیت امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش فرمائی ہے اس میں ہر قسم کی خیر شامل ہے اور اسی طرح سے قرآن کی تلاوت بھی اسی میں شامل ہے، پس یہ اس پر دلالت ہے کہ قرأت کرنا قاری کا فعل ہے اور بندے کا فعل بھی اس کی طرح مخلوق ہے۔ پھر اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے دو احادیث پیش فرمائی ہیں، ان کا ترجمۃ الباب میں مطابقت ہونا اس قول کے ساتھ ہے: «فهو يتلوه آناء الليل و آناء النهار .» [لب اللباب: 299/5] یہ حقیر اور ناچیز طالب علم بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت کو داد دینی چاہیے، آپ رحمہ اللہ نے ان احادیث سے اس طرح سے باریک بینی سے اس مسئلے کو رفع کیا کہ آپ رحمہ اللہ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ آپ خلق قرآن کے قائل ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث اور باب کے ذریعے اپنے اوپر لگائے گئے ان اتہامات اور الزامات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور واضح کر دیا کہ آپ رحمہ اللہ ہرگز خلق قرآن کے قائل نہیں ہیں، بلکہ آپ قرآن مجید کو اللہ کا کلام مانتے ہیں، اگر آپ غور کریں تو امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث «سالم عن ابيه» سے ذکر فرمائی ہے اس کی سند میں «امام على بن المديني» ہیں اور اسی کا دوسرا طرق کتاب فضائل القرآن (رقم: 5025) میں ذکر فرمایا ہے مگر اس طرق میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نہیں ہیں ؎۱، آخر اس میں کون سی بات یا راز چھپا ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے اس موقع پر جبکہ قرآن غیر مخلوق ہے کو ثابت کرنے کے لیے علی بن المدینی رحمہ اللہ کی سند سے حدیث پیش فرمائی؟ اللہ تعالیٰ نے اس حقیر کے دل میں یہ بات اس موقع پر ڈالی ہے کہ «علي بن مديني» وہ ہیں جن کی حدیث امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ترک کر دی تھیں، کیوں کہ ابتلاء کے ایام میں انہوں نے بھی جان بچانے کے لیے قرآن کو مخلوق کہہ دیا تھا، مگر امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ”علی بن مدینی سے ایک لغزش ظاہر ہوئی تھی لیکن انہوں نے اس سے توبہ کر لی تھی۔“ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے جو سند میں اس موقع پر ان کا نام لیا ہے اور ان کے طریق سے حدیث نقل فرمائی ہے اس کے بہت سارے مقاصد ہو سکتے ہیں، پہلا مقصد تو یہی دکھلائی دیتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ علی بن مدینی رحمہ اللہ خلق قرآن کے عقیدے سے تائب ہو چکے تھے؎ ۲، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآن کلام اللہ ہے ثابت کرنے کے لیے ان سے حدیث نقل فرمائی ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اس عقیدے کے قائل نہ تھے اور ان کے نزدیک ثقہ اور حجت تھے۔ دوسری بات یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنا بھی دفاع کر رہے ہوں کہ مجھ پر یہ صرف الزام ہے، میں خلق قرآن کا قائل نہیں ہوں، بلکہ قرآن کلام اللہ ہے۔ ------------------ ؎۱ قارئین کی آسانی اور مزید بات کو سمجھنے کے لیے ہم ان دونوں احادیث کی مکمل اسناد یہاں تحریر کر دیتے ہیں تاکہ بات آسانی سے سمجھی جائے۔ کتاب فضائل القرآن والی حدیث کی سند: امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني سالم بن عبدالله، أن عبدالله بن عمر . . . . .» دوسری سند جسے کتاب التوحید میں ذکر فرمائی: «حدثنا على بن عبدالله، حدثنا سفيان، قال الزهري، عن سالم، عن أبيه . . . . .» ۔ ؎ ۲ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تہذیب التہذیب میں علی بن مدینی رحمہ اللہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ «قال محمد بن مخلد: سمعت محمد بن عثمان بن أبى شيبة يقول: سمعت على بن المديني قبل أن يموت بشهرين يقول: القرآن كلام الله غير مخلوق.» [تهذيب التهذيب: 715/5]، ”محمد بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ علی بن مدینی رحمہ اللہ نے اپنی وفات سے دو ماہ قبل فرمایا تھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔“ یہ بات اس مسئلے پر واضح دلیل ہے کہ امام المحدث علی بن مدینی رحمہ اللہ خلق قرآن کے قائل نہ تھے، اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ باب کے تحت آپ سے حدیث نقل فرمائی ہے تاکہ قیامت تک آپ پر اٹھنے والے الزامات کو مٹا دیا جائے۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 325