You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا أَذَانَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ»
Abdullah b. 'Umar (Allah be pleased with both of them) reported: I heard the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: Bilal announces Adhan during the night, so you eat and drink, till you hear the Adhan of Ibn Umm Maktum.
یونس،ابن شہاب،سالم بن عبداللہ،حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کے وقت ہی اذان دے دیتے ہیں۔لہذا تم کھاتے اور پیتے رہو یہاں تک کہ تم حضرت ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان سنو۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 151 ´طلوع فجر سے پہلے بھی اذان کہنا مشروع ہے` «. . . وعن ابن عمر وعائشة رضي الله عنهم قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم . . .» ”. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا ”بلال (رضی اللہ عنہ) رات کو اذان کہتا ہے تم لوگ ابن ام مکتوم (رضی اللہ عنہ) کی اذان تک کھا پی لیا کرو . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 151] لغوی تشریح: «يُؤَذَّنُ بِلَيْلِ» رات کو اذان کہنے کا مطلب ہے کہ طلوع فجر سے قبل اذان کہتا ہے۔ «فَكُلُوا وَاشْرَبُوا» کھاؤ پیو سے مراد ہے کہ اگر تم روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہو تو سحری کا وقت باقی ہے، کھا پی سکتے ہو۔ «إِدْرَاجٌ» کا مطلب ہے: حدیث میں راوی کا اپنی طرف سے تشریح و توضیح کی صورت میں اضافہ کرنا۔ ادراج سے مراد یہاں «وَكَانَ رَجُلًا أَعْمٰي» کا فقرہ ہے جو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یا زہری رحمہ اللہ کی طرف سے اضافہ شدہ ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسری اذان وقت سے مؤخر کر کے دی جاتی تھی کیونکہ اطلاع دینے والا سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو یا تو فجر کے طلوع ہونے کے قریب اطلاع دیتا یا جب فجر کا کچھ حصہ نمودار ہو جاتا اس وقت انہیں مطلع کرتا۔ فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طلوع فجر سے پہلے بھی اذان کہنا مشروع ہے لیکن یہ اذان اس غرض کے لیے نہیں ہوتی جس غرض کے لیے معمول کی اذان دی جاتی ہے بلکہ اس سے مقصود سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنا ہوتا ہے کہ وہ انہیں اور نماز کی تیاری کریں۔ یا تہجد گزاروں کو آگاہ کرنا تاکہ نماز ختم کر لیں اور فجر کے لئے تیار ہوئیں۔ ➋ ان دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ زیادہ نہیں ہوتا تھا، زیادہ سے زیادہ 10، 15 منٹ کا وقفہ ہو گا۔ ➌ مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مسجد میں نماز کی اذان دینے کے لیے دو مؤذن رکھنا درست ہے۔ بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 151