You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ، وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، كُلُّهُمْ عَنْ أَبِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ يَعْنِي أَبَا عَاصِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ، قَالَ: حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ، يَبَكِي طَوِيلًا، وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْجِدَارِ، فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ: يَا أَبَتَاهُ، أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا؟ أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا؟ قَالَ: فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ عَلَى أَطْبَاقٍ ثَلَاثٍ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي، وَلَا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَكُونَ قَدِ اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ، فَقَتَلْتُهُ، فَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَكُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَلَمَّا جَعَلَ اللهُ الْإِسْلَامَ فِي قَلْبِي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلْأُبَايِعْكَ، فَبَسَطَ يَمِينَهُ، قَالَ: فَقَبَضْتُ يَدِي، قَالَ: «مَا لَكَ يَا عَمْرُو؟» قَالَ: قُلْتُ: أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ، قَالَ: «تَشْتَرِطُ بِمَاذَا؟» قُلْتُ: أَنْ يُغْفَرَ لِي، قَالَ: «أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا؟ وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟» وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ؛ لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ، وَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَاءَ مَا أَدْرِي مَا حَالِي فِيهَا، فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ، وَلَا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا، حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي
It is narrated on the authority of Ibn Shamasa Mahri that he said: We went to Amr b. al-As and he was about to die. He wept for a long time and turned his face towards the wall. His son said: Did the Messenger of Allah (may peace be upon him not give you tidings of this? Did the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) not give you tidings of this? He (the narrator) said: He turned his face (towards the audience) and said: The best thing which we can count upon is the testimony that there is no god but Allah and that Muhammad is the Messenger of Allah. Verily I have passed through three phases. (The first one) in which I found myself averse to none else more than I was averse to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and there was no other desire stronger in me than the one that I should overpower him and kill him. Had I died in this state, I would have been definitely one of the denizens of Fire. When Allah instilled the love of Islam in my heart, I came to the Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and said: Stretch out your right hand so that may pledge my allegiance to you. He stretched out his right hand, I withdrew my hand, He (the Holy Prophet) said: What has happened to you, O 'Amr? replied: I intend to lay down some condition. He asked: What condition do you intend to put forward? I said: should be granted pardon. He (the Holy Prophet) observed: Are you not aware of the fact that Islam wipes out all the previous (misdeeds)? Verily migration wipes out all the previous (misdeeds), and verily the pilgrimage wipes out all the (previous) misdeeds. And then no one as or dear to me than the Messenger of Allah and none was more sublime in my eyes than he, Never could I, pluck courage to catch a full glimpse of his face due to its splendour. So if I am asked to describe his features, I cannot do that for I have not eyed him fully. Had I died in this state had every reason to hope that I would have bee among the dwellers of Paradise. Then we were responsible for certain things (in the light of which) I am unable to know what is in store for me. When I die, let neither female mourner nor fire accompany me. When you bury me, fill my grave well with earth, then stand around it for the time within which a camel is slaughtered and its meat is distributed so that I may enjoy your intimacy and (in your company) ascertain what answer I can give to the messengers (angels) of Allah.
ابن شماسہ مہری سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : ہم عمرو بن عاصرضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے ، وہ موت کےسفر پر روانہ تھے ، روتے جاتے تھے اور اپنا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا تھا ۔ ان کا بیٹا کہنے لگا: ابا جان ! کیا رسو ل اللہ ﷺ نے آپ کو فلاں چیز کی بشارت نہ دی تھی ؟ کیا فلاں بات کی بشارت نہ دی تھی ؟ انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا : جو کچھ ہم (آیندہ کے لیے ) تیار کرتے ہیں ، یقیناً اس میں سے بہترین یہ گواہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ا ور محمد (ﷺ)اللہ کے رسو ل ہیں ۔ میں تین درجوں (مرحلوں) میں رہا ۔(پہلا یہ کہ ) میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مجھ سے زیادہ بغض کسی کو نہ تھا اور نہ اس کی نسبت کوئی اور بات زیادہ پسند تھی کہ میں آپ پر قابو پا کر آپ کو قتل کر دوں ۔ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقیناً دوزخی ہوتا ۔ (دوسرا مرحلے میں) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی تو میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اپنا دایاں ہاتھ بڑھایئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں ، آپ نے دایاں ہاتھ پڑھایا،کہا : تو میں نے اپنا ہاتھ ( پیچھے) کھینچ لیا ۔ آپ نے فرمایا: ’’عمرو! تمہیں کیا ہوا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کی : میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا :’’ کیا شرط رکھنا چاہتے ہو ؟‘‘ میں نے عرض کی:یہ (شرط) کہ مجھے معافی مل جائے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے ؟ او رہجرت ان تمام گناہوں کوساقط کر دیتی ہے جو اس (ہجرت) سے پہلے کیے گئے تھے اور حج ان سب گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تہآ ۔ ‘‘ اس وقت مجھے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی، میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا اور اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا ، پھر (تیسرا مرحلہ یہ آیا ) ہم نےکچھ چیزوں کی ذمہ داری لے لی ، میں نہیں جانتا ان میں میرا حال کیسا رہا ؟ جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنےوالی میرے ساتھ نہ جائے ، نہ ہی آگ ساتھ ہو اور جب تم مجھے دفن کر چکو تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا ، پھر میری قبر کے گرد اتنی دیر ( دعا کرتے ہوئے) ٹھہرنا ، جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکتا ہے تاکہ میں تمہاری وجہ سے (اپنی نئی منزل کے ساتھ) مانوس ہو جاؤں اور دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرستادوں کو کیا جواب دیتا ہوں ۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 28 ´اسلام سابقہ تمام گناہ مٹا دیتا ہے ` «. . . وَعَن عَمْرو بن الْعَاصِ قَالَ: «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقلت ابْسُطْ يَمِينك فلأبايعك - [16] - فَبسط يَمِينه قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِي فَقَالَ مَا لَكَ يَا عَمْرُو قلت أردْت أَن أشْتَرط قَالَ تَشْتَرِطُ مَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي قَالَ أما علمت أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يهدم مَا كَانَ قبله» ؟ وَالْحَدِيثَانِ الْمَرْوِيَّانِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: «أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ» . والاخر: «الْكِبْرِيَاء رِدَائي» سَنَذْكُرُهُمَا فِي بَابِ الرِّيَاءِ وَالْكِبْرِ إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى . . .» ”. . . سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا عرض کیا: آپ داہنا ہاتھ پھیلائیے آپ کے دست مبارک پر بیعت کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داہنے ہاتھ کو آگے بڑھا دیا۔ میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیا؟“ میں نے عرض کیا کچھ شرط کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا شرط لگانا چاہتے ہو؟ وہ شرط لگا لو“، میں نے عرض کیا کہ اس شرط پر بیعت کرں گا کہ میرے سب گناہوں کی بخشش ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمرو! کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اسلام ان تمام گناہوں کو گرا دیتا ہے۔ یعنی نیست و نابود کر دیتا ہے جو اسلام سے پہلے صادر ہو گئے تھے اور ہجرت ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتی ہے جو ہجرت سے پہلے ہوئے تھے۔ اور حج بھی ان تمام گناہوں کا خاتمہ کر دیتا ہے جو حج سے پہلے ہو گئے تھے۔“ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 28] تخریج الحدیث: [صحیح مسلم 321] فقہ الحدیث ➊ ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی اور آپ کی وفات کے بعد «اولوالامر» (امراء) کی بیعت دائیں ہاتھ سے کی جاتی تھی۔ سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «ترون كفي هذه، فأشهد أني وضعتها على كف محمد صلى الله عليه وسلم» ”تم میری یہ ہتھیلی دیکھتے ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اسے (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر (بیعت کے لئے) رکھا تھا۔“ [مسند أحمد 189/4 ح 17842 و سنده صحيح، وأخطأ من أعله، وأورده الضياء فى المختاره 59/9] لہٰذا صرف دائیں ہاتھ سے مصافحہ جائز و مشروع بلکہ افضل ہے۔ دیوبندیوں کے ایک بڑے عالم محمود حسن گنگوہی صاحب ایک شخص کے استفسار پر مصافحہ کے بارے میں کہتے ہیں: ”ایک ہاتھ سے بھی صحیح ہے اور دونوں ہاتھوں سے بھی، دونوں قول کوکب الدری ج 2 ص 141 میں ہیں۔“ [ملفوظات فقيه الامت ج7 ص23] صحیح بخاری میں ہے کہ: «وصافح حماد بن زيد ابن المبارك بيديه» ”اور حماد بن زید نے ابن المبارک سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کیا۔“ [كتاب الاستئذان باب الاخذ باليدين قبل ح: 6265] لہٰذا اگر کوئی شخص دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ عام مرفوع احادیث سے استنباط کرتے ہوۓ صرف ایک (دائیں) ہاتھ سے ہی مصافحہ کیا جائے۔ «والله اعلم» فائدہ: ثابت البنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «كنا إذا أتينا أنس بن مالك، فإذا رآنا دعا بدهن طيب، فيمسح به يديه ليصافح به أخوانه» ”ہم جب سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آتے، جب وہ ہمیں دیکھتے تو خوشبودار تیل منگواتے پھر اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر ملتے تاکہ اس (خوشبودار تیل) کے ساتھ اپنے بھائیوں سے مصافحہ کریں۔“ [كتاب الزهد لابي حاتم الرازي ص76 وسنده صحيح] اسی روایت کی دوسری سند میں ثابت البنانی رحمہ اللہ سے آیا ہے کہ: «أن انسا كان أصبح دهن يده بدهن طيب لمصافحة إخوانه» بےشک جب صبح ہوئی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر خوشبودار تیل لگاتے تاکہ اپنے بھائیوں سے مصافحہ کریں۔ [الادب المفرد و للبحاري: 1012 وسنده حسن] اس مسئلے میں تشدد کرنا صحیح نہیں ہے۔ جس کی جو تحقیق ہے وہ اس پر عمل کر لے، ان شاء اللہ عنداللہ ماجور ہو گا۔ نیز دیکھئے: [الادب المفرد للبخاري: 973 و سنده حسن] ➋ اگر کوئی (دارالحرب والا) کافر سچے دل سے مسلمان ہو جائے تو اس کے پہلے (سابقہ) سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ حج اور ہجرت سے سارے صغیرہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لئے توبہ اور حق دار تک اس کا حق لوٹانا ضروری ہے۔ ➌ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی یہ درخواست کہ ان کی مغفرت ہو جائے، ان کی فضیلیت کی زبردست دلیل ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «ابنا العاص مؤمنان عمرو و هشام» ”عاص کے دونوں بیٹے عمرو (بن العاص) اور ہشام (بن العاص رضی اللہ عنہما) مؤمن ہیں۔“ [مسند أحمد 304/2 ح 8029 و سنده حسن] اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 28